بھیونڈی کی خستہ حال اورجان لیوا سڑکیں

۔مولانا یوسف رضاقادری

285

وہ شہر جسے ہندوستان کا مانچسٹر کہاجاتا اور جسے پارچہ بافی کی صنعت کے حوالے سے دنیا بھر میں جانا جاتاہے یہاں کی سڑکیں ہر سال بارش میں شہریوں کو ایک کرب میں مبتلا کر دیتی ہیں سڑکیں خود تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں اس لئے وہ اس کا انتقام لوگوں سے لیتی ہیں کہ میری تعمیر میں میرے ساتھ سوتیلا سلوک کیوں کیاگیا کیا میں اچھے مٹیریل کی مستحق نہ تھی ؟ کیا پائیدار مٹیریل سے میری پیٹھ مضبوط نہیں کی جاسکتی تھی؟ کہ میں ہر شہری اور اس کی سواری کا بوجھ سہار لیتی اور تمہیں میری پیٹھ پر سے گزرنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی؟ تم نے مجھے توڑا اب تمہارے ہاتھ ٹوٹیں گے تم نے مجھے توڑا اب تمہارے پیر ٹوٹیں گے تم نے میرے سینے میں گھاؤ ڈالا اب تمہارے سینوں سے ٹیسیں اٹھیں گی ۔اسے کون بتائے کہ اس کے ساتھ یہ کرنے والے بارہ لاکھ افراد میں سے صرف نوے افراد ہیں جن کے مجرمانہ عمل نے اس کے سینے کو زخمی کرکے ایسا گھاؤ بناڈالا کہ اب اس پر چلنا دشوار ہوگیاہے

بھیونڈی میونسپلٹی کو جب نگر پالیکا سے مہانگر پالیکا کادرجہ ملا تو یہاں کہ شہری بہت خوش تھے کہ اب ہمیں اچھی سڑک ملے گی صاف پانی ملے گا نظافت کا عمدہ نظام قائم ہوگا مگر اہل بھیونڈی کی ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اس لئے کہ یہاں بدقسمتی سے ایسے لوگوں کا قبضہ ہوگیا جو میونسپلٹی کے خزانوں سے شہر کی تعمیر وترقی کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے لگے اور ہر الیکشن میں پیسہ لٹا کر کامیاب ہوتے اور پھر اپنا پیسہ سود سمیت حاصل کرنے میں پورے پانچ سال گزار دیتے ٹاپ ٹین کی اصطلاح تو بھیونڈی میں بہت مشہور ہے جو ایک گروہ ہے جس نے میونسپلٹی سے سب سے زیادہ استفادہ کیا اس گروہ نے شہر کے لئے تو کچھ نہ کیا مگر اپنی آنے والی نسلوں کے لئے اتنا کردیاہے کہ وہ بیٹھ کر کھاتی اور عیش کرتی رہیں گی.

کارپوریٹرس کی نااہلی اور رشوت خوری کے نتیجے میں سڑکیں تباہ وبرباد ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے پیدل چلنا بھی دشوار ہوگیاہے اسکوٹر اور رکشہ سے بھی چلنا انتہائی اذیت ناک ہوگیاہے اسکوٹر سے چلنے میں ہر وقت گڈھے میں گرنے کا ڈر ستاتا رہتاہے ہر سال بارش میں بڑے بڑے گڈھے ہوجاتے ہیں یہ گڈھے نہ صرف سڑکوں پر ہوتے ہیں بلکہ بھیونڈی کے بریج بھی اپنا سینہ کھول کر سیاست دانوں کی نااہلی کا ثبوت دیتے ہیں ہرسال بے شمار افراد کے ساتھ حادثہ پیش آتاہے اور کئی لوگوں کو تو جان بھی گنوانی پڑتی ہے ان خستہ حال سڑکوں نے بے شمار لوگوں کو کمر کا مریض بھی بنادیاہے اسکول جانے والے بچوں کے رکشہ گڈھوں میں ڈولتے رہتے ہیں اور ہر وقت ان کے گرنے کا خدشہ لگارہتاہے تمام اسکولوں کے باہر راستوں کی حالت آپ دیکھ سکتے ہیں کتنی مہیب ہے

مگر سیاستدانوں کے قلوب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ جن مفادات کی خاطر میونسپلٹی میں آئے تھے اس کا حصول تو بحسن وخوبی ہورہاہے غالبا 2015 کی بات ہے میں کچھ علماء اور احباب کو لے انہی خستہ حال سڑکوں کے سلسلے میں کمشنر کے پاس گیا تھا اور ان سے پوچھا گیا کہ سڑکوں کی یہ حالت کیوں ہے تو انھوں نے کہا کہ میں جب سے آیا ہوں فائلوں کی ورق گردانی کررہاہوں اور یہ دیکھ کر میں بھی حیرت زدہ ہوں کہ بارہ سالوں میں پانچ سو کروڑ سڑکوں پر خرچ ہوچکے ہیں تو پھر سڑکوں کی یہ حالت کیوں ہے کمشنر صاحب کے اس انکشاف پر ہم سب حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب گئے اور میں نے کمشنر صاحب سے پوچھاکہ کیا واقعی بارہ سالوں میں سڑکوں پر پانچ سو کروڑ خرچ ہوچکے ہیں تو انھوں نے پھر بڑے وثوق سے کہا ہاں پانچ سو کروڑ خرچ ہوچکے ہیں میں نے کہا کہ اگر ڈھائی سو کروڑ بھی ایمانداری سے سڑکوں پر خرچ کئے جاتے تو بھیونڈی کی سڑکیں لندن کی سڑکوں کی طرح ہوتی پھر ہم نے ماہتی کے ذریعہ اس کا ریکارڈ بھی نکالا اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کارپوریشن کی شاندار عمارت میں کتنا گھناؤنا کھیل اہل بھیونڈی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے

گندگی کا انبار بھیونڈی کی نمایاں علامت بن گیاہے صاف صفائی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ ہر محلہ میں گندگی تعفن پھیلا ہوا نظر آتاہے اور شہر کے لوگ بڑے صبروشکیب کے ساتھ اسے برداشت کرتے رہتے ہیں جب سے مہانگر پالیکا کا درجہ ملاہے بائیس کمشنر آچکے ہیں اس وقت تئیسواں کمشنر کرسی پر براجمان ہے دنیا محو حیرت ہے کہ جتنے عرصے میں سات آٹھ کمشنر ہوتے ہیں بھیونڈی میں تئیس کیسے ہوگئے اس کی وجہ بھی ہمارے محیر العقول کارپوریٹرہیں اہلیان شہر ہرسال نوسو کروڑ روپیہ ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں مگر اس کے بدلے میں کارپوریشن انھیں کیادیتی ہے وہی تباہ حال سڑکیں گندگی کا انبار گندہ پانی ۔ کتنے علاقوں میں پانی بھی نہیں آتا کوٹرگیٹ جیسے علاقے میں پانی کی قلت سے لوگ پریشان ہیں

اب بھیونڈی کے لوگ سیاست دانوں کے کردار سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔ بھیونڈی کی حالت اب کبھی نہیں بدل سکتی ہر طبقہ احتجاج کرچکاہے کمشنر اور میئر کو میمورینڈم دے چکا ہے مگر بے حس و بے غیرت سیاست دانوں پر شہریوں کی فریاد کا کوئی اثر نہ ہوا اور ان کے مطالبات کبھی پورے نہیں ہوئے.اب اہلیان بھیونڈی کو سنجیدگی کے ساتھ تغیر حال کا منصوبہ بنانا ہوگا کہ آنے والے الیکشن میں ایسے افراد کو اپنے وارڈ سے کھڑا کرنا ہوگا جو شریف ہوں تعلیم یافتہ ہوں رشوت سے نفرت کرتے ہوں اور قوم وملت کی فلاح و بہبودی کا جذبہ رکھتے ہوں اگر ایسا کوئی اہل انکار بھی کرے تو اسے اصرار کے ساتھ کھڑا کریں اور اسے ووٹ دے کر کامیاب بنائیں تاکہ وہ ایک کارپورٹر کی ذمہ داری دیانت داری سے نبھاکرہمیں اس کرب سے نجات دلاسکے جس میں ہم سب ایک طویل عرصے سے مبتلا ہیں اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی طریق سے شہر کی تعمیر وترقی کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں اگر آنے والے الیکشن میں اس انقلاب کے لئے اہلیان شہر آمادہ نہ ہوئے تو شہر کی یہ حالت کبھی بدل نہیں سکتی بھیونڈی کے سیاسی لیڈران ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں سوائے ایک کے جس کی طرف اشارہ ہی کافی ہے اس لئےقوم کو ان سے کوئی امید نہیں رکھنا چاہئیے