
جب کسی قوم کی مت ماری جاتی ہے تو وہ اپنی حقیقت و شناخت اور اپنی تہذیب و تمدن کو بھلا کر کسی غیر کے طور و طریق پر فریفتہ ہونے لگتی ہے، ہندوستانی عدلیہ کے حالیہ فیصلوں نے جہاں مشرقی تہذیب کا گلا گھونٹا ہے، وہیں غیرت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے، پہلے تو مساوات کے نام پر ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کو جائز قرار دے کر دفعہ ۳۷۷ کو کالعدم قرار دے دیا اور اب مساوات و آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر دفعہ ۴۹۷ کو بھی ختم کر دیا ہے۔ فاضل ججوں کی مغربی سوچ کے مطابق کوئی بھی شخص کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے، جس پر خود اس عورت کے شوہر کو بھی کسی قسم کے اعتراض کا حق نہیں ہوگا، مطلب اب عورت شوہر کی کمائی پر سارے شہر سے عشق لڑا سکتی ہے، اور چاہے تو پورے محلے کی بیوی بھی بن سکتی ہے، وہ بنا اجازت کے کہیں بھی جا سکتی ہے، بلکہ اگر عورت چاہے گی تو خود اپنے شوہر کے گھر میں اپنے آشنا سے مل سکتی ہے، اور شوہر کی گاڑھی کمائی سے کسی اور کی ناجائز اولاد کو جن سکے گی، اسی طرح مرد بھی کسی کی بیوی سے جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے، یہ میں نہیں کہتا ہمارے جج صاحبان کہہ رہے ہیں، ہماری عدالت اس بات کو جائز قرار دے رہی ہے، اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ بھارت بھی مغرب کی چال چل پڑا اور اپنی چال بھول گیا! واہ کیا کہنے ہیں سمجھداری اور روشن خیالی کا کہ عورت و مرد ناجائز طریقے سے چاہیں تو سینکڑوں سے جنسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں، اور اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہیں، لیکن اگر کوئی جائز طریقے پر دو نکاح کر کے اپنی دونوں بیویوں کے حقوق ادا کرے تو وہ غیر قانونی ٹھہرا۔۔۔! اسے تو ہم یہی کہیں گے کہ شاید ہمارے فاضل ججز کا یہ خیال ہے کہ اگر جرائم و گناہ پر قابو پانے میں ناکام رہے تو خود اس قانون کو ہی کالعدم قرار دے دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری کہ وہ قانون ہی ختم کر دیا جائے جس کے ذریعہ وہ فعل غیر قانونی تھا تاکہ ہر قسم کی پکڑ دھکڑ سے چھٹکارا مل جائے اور حکومتی ناکامی سے بآسانی بچا جا سکے۔
کیا کوئی غیرت مند شخص برداشت کرے گا کہ جس بیوی کے لیے وہ دن بھر محنت کرتا ہے وہ کسی اور کے ساتھ تعلقات بنائے؟؟ میرا خیال ہے کہ خود ہمارے جج صاحبان بھی اس بات کو گوارا نہیں کریں گے کوئی اجنبی شخص ان کے گھر میں انکی عزتوں پر ڈاکہ ڈالے! تو پھر ہندوستانی عوام کیونکر اسے برداشت کر سکتے ہیں ؟؟ ہمارے معاشرے میں لاکھ برائیاں سہی؛ لیکن کوئی بھی غیرت مند یہ نہیں برداشت کر سکتا کہ اسکی بہنیں اور بیٹیاں کسی اجنبی کے ساتھ گل چھرے اڑائیں، تو پھر کیونکر ہماری عدالت نے ایسا فیصلہ لیا؟ آخر ایسی کون سی مجبوری آ گئی تھی کہ ایک ناجائز امر کو قانونی قرار دے دیا گیا؟
بات یہی ہے کہ روشن خیالی اب بھارت میں بھی اپنا پنجہ گاڑنے میں کامیاب ہو رہی ہے، لیکن ہماری عدلیہ یا تو بھول رہی ہے یا پھر اس بات کا علم نہیں کہ جرائم کے باب میں جو قوم جتنا اوپر جاتی ہے اتنے ہی نیچے زمین میں دھنسا دی جاتی ہے، آج بھی قوم سدوم کی بستی اس کی زندہ مثال ہے، امید ہے کہ ہندوستان کے ہر مذہب و ملت کے غیرت مند افراد اس عدالت کو اس فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کریں گے اور بتائیں گے کہ ہماری تہذیب اور ہماری غیرت اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی کہ ہمارے ملک میں بھی ناجائز بچوں کی نسلیں آباد ہوں، ہمارے گھروں میں مشکوک اور ولد الزنا جنم لے، اور ملک کی عزت و غیرت کا جنازہ نکلے، اس لئے کہ بھارتی عوام سینکڑوں سالوں سے اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے رسم و رواج کے ساتھ باعزت زندگی گزارتے آئے ہیں ، اور اسی چال چلن سے دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان بھی رکھتے ہیں ، مغربی کلچرمغرب کے لوگوں کو مبارک، ہمیں ہماری ثقافت عزیز ہے۔
Mob. 9059101653
Gulammustafa9059@gmail.com