بھارت جوڑوں یاترا (پردے کے پیچھے کیا ہے?)
کانگریس کی بھارت جوڑوں یاترا تقریباً مکمل ہوگئ ہے; اور دو چار دن میں ختم بھی ہوجائیگی۔ مجھے اس یاترا سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سیکولر ملک ہے یہاں ہر کسی کو آزادی حاصل ہے وہ چاہے یاترا نکالے, جلسہ کرے, مظاہرہ کرے یا ہڑتال کرے۔ میں تو بس یہ مضمون امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوئے غلط رجحان کو دور کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔
بھارت جوڑو یاترا جب سے شروع ہوئی تب سے کانگریس کی جانب سے یہ ماحول بنایا جارہا ہیکہ اس یاترا کو انتخابات سے نہ جوڑے ۔ اس یاترا کا مقصد انتخابات نہیں بلکہ اس کے ذریعہ ہم ملک کو بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ملک کی عوام کو جورنا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ یہ ایک بےوقوفانہ گفتگو ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا ہر ہر عمل صرف اور صرف انتخابات کے گرد گردش کرتا ہے۔ لہذا بھارت جوڑو یاترا کا اصل مقصد ۲۰۲۴ کے انتخابات ہے۔ دوسرا اور *سب سے اہم مقصد جس کے تحت کانگریس نے کنیا کماری سے لیکر کشمیر تلک یہ یاترا چلائی ہے وہ ہے راہول گاندھی کی شخصیت۔ جی ہاں اس یاترا کا اہم ترین مقصد عوام میں راہول گاندھی کی امیج کو بہتر بنانا ہے۔* کیونکہ یاترا سے پہلے تک راہول کی شخصیت کیسی تھی یہ سب جانتے ہیں بلکہ ان کے مخالفین نے تو انکی شخصیت کے چلتے انہیں ایک بڑے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ کانگریس پارٹی اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔
*یاترا سے پہلے بنگال کے انتخابات میں ممتا بینرجی کی عظیم فتح اور اس کے بعد پنجاب میں کیجریوال کی بےمثال جیت کے بعد عوام سے لیکر میڈیا تک یہ بات چل رہی تھی کہ ممتا یا کیجریوال ۲۰۲۴ کے انتخابات میں مودی کے خلاف اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں اور اس بحث میں راہول کا نام شاذ و نادر ہی نظر آتا تھا۔ _لہذا اس یاترا کا اصل مقصد "راہول گاندھی کو وزیراعظم کے چہرے کے طور پر تیار کرنا ہے”۔* اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس میں کامیاب بھی ہوگئ ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ اس یاترا کا مقصد الیکشن نہیں اور یہ لوگ صرف ملک کو جوڑنا چاہ رہے ہیں نہایت بےوقوفی ہے۔ کیونکہ آپ اس بات پہ غور کیجیے کہ یاترا تو کانگریس پارٹی کی تھی۔ مگر یاترا کا مرکز آغاز سے لیکر اختتام تک راہول گاندھی ہی کو بنایا گیا۔ حالانکہ راہول نہ کانگریس کے صدر ہے نہ ہی وہ پارلیمنٹ میں لیڈر آف اپوزیشن۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ *۵۲* *ممبر آف پارلیمنٹ اور سینکڑوں بڑے نیتاؤں کے باوجود پوری یاترا راہول کے گرد کیوں گھومتی رہی۔ اگر مقصد نفرت کو ہٹانا تھا تو یاترا کو کانگریس کی آئیڈیالوجی کے گرد گھماتے اور یاترا کا اصل پرچم صدرِ کانگریس کے ہاتھ میں ہوتا ۔ پھر کیوں ایک ہی شخص کو یاترا کا مرکز و محور بنایا گیا?*
یہ تمام باتیں صاف کرتی ہیکہ یاترا کا مقصد راہول کی شخصیت کو ویسے ہی بناکر پیش کرنا تھا جس طرح ۲۰۱۴ کے انتخابات میں مودی کی شخصیت کو بناکر پیس کیا گیا۔ ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ کے انتخابات کانگریس بہ مخالف بی جے پی نہیں بلکہ کانگریس بہ مخالف مودی تھے۔ اسی طرح اب کانگریس ۲۰۲۴ کے انتخابات کو کانگریس بہ مخالف مودی کے بجائےراہول بہ مخالف مودی بنانا چاہتی ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کا مرکزی عنوان ہے "نفرت چھوڑو۔۔۔ بھارت جوڑو۔۔۔” سوال یہ ہیکہ اس ملک میں نفرت کس کے خلاف ہے? اس سوال کا سیدھا جواب ملک کا ۱۰ سال کا بچہ بھی دے سکتا ہیکہ ملک میں اصل نفرت کا شکار مسلمان ہوریے ہیں۔ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرتی ماحول بنایا جارہا ہیں۔ لہذا *جب آپ کی لڑائی نفرت کے خلاف تھی تو پھر ان کو آگے کرتے جنہیں نفرت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ لیکن یہ بات قابلِ غور ہیکہ پوری یاترا مکمل ہونے کو ہے مگر ایک بھی مسلم نیتا اس یاترا کا مرکز نہیں بنا۔* کانگریس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ایک بار بھی کسی مسلم نیتا کو یاترا کا چہرہ بتانے کے لیے ٹوئیٹ نہیں کیا گیا۔ بلکہ اتنے مہینوں سے کانگریس کا آفیشل ٹویٹر ہینڈل اور کانگریس ترجمان بس راہول گاندھی کے ویڈیوز شیئر کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک بھی مسلم نیتا کو یاترا کا چہرہ نہیں بنایا گیا۔ حالانکہ ہر روز مسلمان کہیں نہ کہیں نفرت کہ بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ *یہ تو وہی ہوا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔*
اس کے علاوہ آپ اس بات پہ بھی غور کیجیے۔ کہ راہول گاندھی جو اس یاترا کا مرکز ہے انہوں نے اس یاترا میں ہزاروں لوگوں سے بلکہ ان کے مطابق لاکھوں لوگوں سے ملاقات کی لیکن *انہیں ایک بار بھی فرصت نہیں ملی کہ نفرت کی بھینٹ چڑھے ماب لنچنگ کے شکار مسلمانوں کے گھر والوں سے بھی مل لیتے۔ راہول سے یہ بھی تو کوئی پوچھے کہ کیوں وہ اخلاق سے لیکر پہلوں خان اور تبریز انصاری سے لیکر حافظ جنید تک کے گھر والوں کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔ کیا وہ نفرت کی بھینٹ چڑھے سب سے بڑے مظلوم نہیں ہے? کیوں راہول جھارکھنڈ میں پولیس کی گولی سے شہید ہوئے اس سولہ سالہ لڑکے کی ماں سے نہیں ملے جو چیخ چیخ کر کے اپنے بیٹے کا سوال کررہی تھی۔ آپ ان سے یہ بھی پوچھیے کہ یہ نفرت مٹانے چلے تھے تو کیوں فاطمہ نفیس کو یاترا کا حصہ نہیں بنایا گیا جس کا بیٹا نجیب پچھلے چھے سالوں سے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے غائب ہے۔*
راہول گاندھی نے یاترا میں شامل ہونے کے لیے ملک کے مختلف ریاستوں کے مختلف سیاسی لیڈران کو تو خط لکھا۔ انہوں نے دعوت نامے دے دے کر تو بہت سے سیاست دانوں کو شامل کرہی لیا اور کئ تو ان کے خط لکھنے کے باوجود بھی نہیں آئے ۔ پھر کیا ہوجاتا جب یہ یاترا کے مرکزی عنوان کے تحت پہلوخان کے گھر والوں کو بھی خط لکھ کر کے یاترا میں شامل ہونے کی دعوت دے دیتے۔ کیا بگڑ جاتا اگر یہ تبریز انصاری کی بیوی کو یاترا میں شامل ہونے کی دعوت دیتے کیا۔ کیا راہول کی شان میں کچھ فرق آجاتا اگر یہ حافظ جنید اور نجیب کی ماں کو خط لکھتے کہ آپ بھی اس یاترا کا حصہ بنیے۔ مگر نہیں شہزادے راہول کو تو اکھلیش اور مایاوتی سے ہی فرصت نہیں ملی۔
یاد رکھیے یہ یاترا نفرت کو ختم کرنے اور محبت کو بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف انتخابات کو جیتنے کے لیے نکالی گئ ہے۔
نفرت چھوڑو کے بعد جو دوسرا سب سے بڑا نعرہ راہول گاندھی نے دیا وہ تھا "ڈر کو ختم کرو” یا "ڈرو مت”۔ *انہوں اس یاترا میں سینکڑوں تقاریر کی۔ ہر جگہ یہ کہا کہ ڈرئیے مت; ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔* لیکن آپ اس بات پہ غور کیجیے انہوں نے اپنی کسی تقریر میں ان لوگوں کا ذکر ہی نہیں کیا جنہیں حقیقت میں ڈرایا جارہا ہے۔ جنہیں مسلسل دو سال سے ڈرانے اور دبانے کی کوشش ہورہی ہے۔ *اگر راہول گاندھی واقعی لوگوں کے دلوں سے ڈر کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر انہوں نے اپنی کسی تقریر میں عمر خالد, گلفشاں, صُصفورہ زرگر اور ان جیسے سینکڑوں طلباء کا نام کیوں نہیں لیا جو تحریک شاہین باغ میں حکومت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تھے۔* اور ان طلباء کو حکومت کی مخالفت کی سزاء میں پچھلے دو سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے۔۔۔ سڑایا جارہا ہے۔
کتنے طلباء ایسے ہے جنہیں ضمانت تک نہیں مل رہی ہے۔ اگر واقعی اس یاترا کے ذریعے راہول ڈر کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر وہ کیوں عمر خالد اور اس جیسے سینکڑوں طلباء کا نام نہیں لیتے۔
راہول کی یاترا کا دوسرا سب سے بڑا چہرہ کنہیا کمار ہے۔ کنہیا خود عمر خالد کے ساتھی ہے۔ اور ماضی میں دونوں کا حکومت کے خلاف جو متحدہ لڑائی لڑی تھی وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ *لیکن اس پوری یاترا میں کنہیا نے دوسرے طلباء کو تو چھوڑیے ایک دفعہ بھی عمر خالد تک کا نام نہیں لیا۔ جنہیں حقیقت میں ڈرایا جارہا ہے کانگریس ان کے لیے کیوں نہیں بولتی? کیا یہی کانگریس کا رنگ ہے? کیا اب کنہیا* *بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہے?*
ایسے بے شمار سوال ہے جو اس ملک کا مسلمان راہول گاندھی اور کانگریس سے پوچھنا چاہ رہا ہے۔ مگر پوچھے تو پوچھے کہاں ? کیونکہ میرے اپنے ضلع میں راہول کی یاترا چھے دن تھی اس یاترا کو کامیاب بنانے میں مسلم کارپوریٹرس نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ مگر راہول نے ان کارپوریٹرس کو ملاقات کے لیے صرف دو منٹ کا وقت دیا۔ جس میں صرف کارپوریٹرس کے ساتھ سیلفی کھینچی گئ۔ جس کے بعد مسلم کارپوریٹرس میں کافی ناراضگی دیکھنے کو ملی۔ *تو جنہیں ڈرایا جارہا ہے ان کی عام عوام تو چھوڑیے منتخب نمائندوں کے لیے بھی راہول کے پاس سیلفی کھینچنے سے زیادہ وقت نہین ہے۔ سوچیے کیا یہی یاترا کا مقصد ہے? کیا مسلمان کی حیثیت راہول کی نظر میں صرف ایک سیلفی کی ہے? کیا جو بیانات راہول کررہے ہیں وہ صرف لفاظی ہے?*
راہول نے اپنی تقاریر میں مولانا آزاد سے آگے بڑھ کر کتنے مسلم مجاہدینِ آزادی کا نام لیا? ذرا ان سے پوچھیے کہ *کرناٹک میں انہوں نے کتنی بار شیر میسور ٹیپو سلطانؒ کا نام لیا۔* کتنی بار انہوں نے مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ, حفظ رحمٰن سیوہاریؒ, مولانا حسین احمد مدنیؒ کا نام لیا۔ اگر آپ واقعی ڈر کو ختم کرکے ملک کی عوام کو اعتماد میں لانا چاہتے تھے تو انہیں بتانا چاہیے کہ اس ملک کی ترقی میں اس کی آزادی میں مسلمانوں نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا ہے۔
*کرناٹک سے گزرتے ہوئے راہول کم از کم اس لڑکی سے تو مل لیتے جسے ہندو توا غنڈوں نے گھیر کر جنونی نعرے لگائے تو اس نے جواب میں نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ اور وہ لڑکی ڈر کے خلاف ہمت کا نشان بن گئ۔ یا اس لڑکے کو ہی اپنی یاترا کا حصہ بناتے جسے اس کے پروفیسر قصاب نے کہا اور وہ بغیر ڈرے ان سے کہتا ہیکہ کیا آپ آپکے بیٹے کو بھی ایسے ہی کہتے?*
محترم راہول جی کم از کم آپ جامعہ کی ان لڑکیوں لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رینا کو ہی خط لکھ دیتے کہ یاترا میں شامل ہوجائیے جو تحریکِ شاہین باغ میں ڈر کے خلاف ہمت کا نشان بن کر ابھرے تھے۔
دراصل کانگریس اب بھی اپنی وہی دوغلی پالیسی پہ عمل پیرا ہیکہ مسلمانوں کو باتوں سے بےوقوف بناؤں اور ان کے ووٹ لو۔ لیکن یاد رکھیے اب مسلمان بےوقوف نہیں ہے۔ وہ سمجھ رہا ہیکہ آپ محض اسکا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کررہے ہیں۔ *مسلمانوں کو تو وہ دن بھی یاد ہے جب CAA کے خلاف احتجاج میں آپکو دس جن پتھ سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں ملی مگر کسان آندولن میں تو آپ ٹریکٹر چلاتے نظر آئے۔ ہمیں اس بات سے کوئی تکلیف نہیں ہے کہ آپ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے اور اس ملک کا ہر مسلمان کسانوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ مگر راہول جی تکلیف تو ہوتی ہے جب ہماری مائیں بہنیں کسان اندولن سے محض کچھ دن پہلے سڑکوں پر تھی اور پورے ملک میں ڈر کے خلاف تحریک چلارہی تھی آپ تین ماہ میں ایک بار بھی نہیں آئے اور کچھ دن بعد کسان آندولن میں تو آپ ہی آپ نظر آرہے تھے۔* مطلب کے آج بھی آپ مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
لہذا آپ کی یہ یاترا ہمیں نہ بےوقوف بنا سکتی ہے نا ہی آپ کا ہمدرد۔
راہول گاندھی اس یاترا میں بار ہاں کہہ رہے ہیکہ میں کنیا کماری سے لیکر کشمیر تک چلا, میں لاکھوں لوگوں سے ملا, میں نے ان کے دکھ درد کو سمجھا۔ *راہول گاندھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے یہ کام کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ آپ کا معاملہ تو ایسا ہے کہ ۹۰۰ چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ جب آپ حکومت میں تھے اس وقت آپ نے اور آپ کے خانوادے نے کتنی پد یاترائیں کی۔ کتنی بار لوگوں سے ملے, کتنی دفعہ انکا دکھ درد سمجھنے کی کوشش کی بتائیے? آج آپ وہی کررہے ہیں جو آپ کہ حکومت کے وقت اڈوانی اور واجپائ جی اور بی جے پی کرتی تھی۔ انہوں بھی تو پورے ملک میں رتھ یاترا نکالی تھی۔ اور آج بی جے پی وہی کررہی ہے جو آپ اپنے دورِ حکومت میں کرتے تھے۔ لہذا معاملہ جیسے کو تیسا ہے۔ آپ اس یاترا سے کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنی پارٹی کو الیکشن جتانے کی تیاری کررہے ہیں۔
آج آپ کہہ رہے ہیکہ ڈرو مت۔ مگر جب کانگریس حکومت میں تھی تو کیا ہوا۔ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد اور پاکستان کا ایجنٹ بتاکر گرفتار کیا گیا اور ڈر پھیلایا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے وقت مرکز میں آپ ہی کی حکومت تھی۔ پھر کیوں مسجد کو اسی وقت آباد نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں تو آپکا اور آپکی والدہ محترمہ کا جو تیور تھا وہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ جس غرور اور تکبر میں اپکا مزاج ساتویں آسمان پر رہتا تھا یہ سب جانتے ہیں۔ یہی بھارت جوڑو پد یاترا اگر آپ اس وقت کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ *جب حکومت تھی تو آپ آسمان سے نیچے نہیں آتے تھے اور اب جب آپکی خود کی پارٹی نہیں بچ رہی ہے تو آپ سڑک تک آگئے ۔ واہ بھئ واہ۔*
اگر آپ واقعی ڈر کو ختم کرنا چاہتے ہے اور بھارت جوڑنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو برابری کی حصے داری دیجیے۔ چوبیس کے انتخابات میں مسلمانوں کو انکے آبادی کے فیصد کے مطابق کانگریس کا ٹکٹ دیجیے۔ حکومت بننے پر کیبنٹ میں مسلمانوں کی آبادی کے فیصد کے مطابق حصہ دیجیے۔ اور یہ سب کرنے کیلئے آپ کے سب سے سنہرا موقع راجستھان اور چھتیس گڑھ ہے وہاں آپ کی حکومت ہے وہاں مسلمانوں کو انکی آبادی کے فیصد کے مطابق ریاستی کیبنٹ میں جگہ دے دیجیے۔ تب ہوگی برابری اور جب برابری ہوگی تب ڈر خود بخود بھاگ جائے گا اور بھارت جوڑنے کا آپ کا خواب بھی پورا ہوجائیگا۔
✍🏻عبداللہ ہندی