بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ ۱۶؍نومبر تک آجائیگا: سید محمد ولی رحمانی
نئی دہلی: ۳۱؍اگست(پریس ریلیز)بابری مسجد کا معاملہ بلاشبہ ہندوستانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے جس کے مقدمہ کی عمر لانبی ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کا امتحان بھی ہے۔
بابری مسجد۱۵۲۸ء سے ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۹ء تک پورے طور پر مسجد رہی اور اس میں پنج وقتہ نماز پابندی سے ہوتی رہی۔ اس قضیہ کی ابتداء فرقہ پرست طاقتوں نے باقاعدہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات کے اندھیرے میں شری رام اور شری لکشمن جی کی مورتی رکھ کر کی اور پہلی مرتبہ ۱۹۴۹ء میں ملک کو معلوم ہؤا کہ رام جی مسجد کے گنبد کے نیچے کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے، اس کے بعد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے لیکن افسوس کہ عدالتوں سے جمہوری تقاضوں کی تکمیل نہ ہوسکی، سنی وقف بورڈ اترپردیش نے بھی ۱۹۶۱ء میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ہوا کچھ نہیں، جو مسلمان پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اسکے داخلہ پر پابندی لگادی گئی۔
اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آخری مرحلہ میں ہے، روزانہ سماعت ہورہی ہے اور ۱۶؍نومبر تک فیصلہ آجائیگا۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے متعلق جو پیروی ہورہی ہے وہ قابل اطمینان ہے اور ججوں کی طرف سے جو مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں وہ بھی مناسب ہیں۔
ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے ایک اخباری بیان میں فرمایا۔ آپ نے اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ جوں جوں وقت قریب آئیگا افواہوں کا بازار گرم رہے گا وہ ان افواہوں پر قطعاً دھیان نہ دیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے موقف پر پوری قوت کے ساتھ قائم ہے اور قانونی چارہ جوئی کے لئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ تمام لوگ اس کے حق میں دعائوں کا اہتمام فرمائیں اور ملک میں اس وقت جس طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں ان سے ہوشیار اور چوکنا رہیں۔