اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
ذوالقرنین احمد
ابھی ایک خبر پڑھا ہو دہلی کے جامعہ نگر میں ننھی بچی کی جو روزانہ ماں کے ساتھ جامعہ میں آتی تھی ایک سال کی بھی عمر نہیں ہے 30 جنوری کو سردی ہونے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی دل کو چیر کر رکھ دیا اس خبر نے، کیسے سفاک کلیجے ہوگئے ان درندہ صفت حکمرانوں کے، یہ ظالم حکومت اپنے وجود کو بچانے کیلے اپنی کرسی کو بچانے کیلے، اقتدار کی حوس کے نشے میں اس قدر چور ہوچکے ہے کہ انسانیت کے تمام حقوق کی پامالیوں کو پس پشت ڈال کر درندوں سے بھی زیادہ وحشی ہوچکے ہیں۔ یہ ظالم یہ سمجھتے ہے کہ مسلمان ان سے ڈر جائے گے۔ یا پھر یہ اپنے ناکام عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے گے تو یہ صرف انکی دل کی تسلی ہے۔
اس ننھی بچی کی شہادت رنگ لائیں گی اس معصوم سی کلی کی شہادت رائیگاں نہیں جائیں گی، سلام ہے اس عفت مآب پاکدامن ماں کو جس نے بچی چھوٹی ہونے کے باوجود اور گھر کی ضروریات اور کام کاج کو پس پشت ڈال کر جامعہ نگر کے میدان میں کڑاکے کی سردی میں بچی کو لیکر مسلسل احتجاج میں اپنی معصوم کلی کو لیکر پہنچتی رہی ہے۔ اور سردی کی وجہ سے معصوم کلی جس نے ابھی دنیا کے حالات زندگی کو نہیں دیکھا تھا نا اسے اپنے وجود کے بارے میں کوئی علم تھا لیکن اس ماں کی جرات کی بدولت کل قیامت میں وہ بچی گواہی دے گی کہ میری ماں نے انسانیت کی بقا کیلے جس احتجاج میں حصہ لیا تھا اس میں معصوم بھی شریک تھی۔ جس میں وہ شہادت کے درجے کو پہنچ گئیں۔
میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر قیامت میں اس ملک کے ملی رہنماو¿ں اور انسانیت کے علم بردار کہلوانے والے رہبر و قائدین سے اس بچی نے سوال کرلیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کیا جواب دے گے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقا کی بات کرنے والے بڑی بڑی مجالس کا اہتمام کرنے والے کروڑوں روپے امن کی اپیل کیلے پانی کی طرح بہانے والے کیا جواب دیں گے۔ آج اگر ان میں غیرت باقی ہو تو ملت کیلے مضبوط اور ذمہ دارانہ طریقے سے لائحہ عمل تیار کریں ورنہ مستقبل میں مورخ جب قلم اٹھائیں گا تو وہ لکھا گا ایک قوم ایسی بھی گزری جس کے قائدین و رہنما مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر دین اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اس قدر جمہوریت میں غرق ہوچکی تھی جنہیں آسمانی خدائی قانون اور شریعت مطہرہ سے زیادہ انسانوں کے بنائے قانون کی فکر کی تھی اور عوام بے سر و سامانی کی حالت میں قائدین کو پکار رہی تھی۔ کے آو¿ ہماری رہبری کروں ہم تمہارے پیچھے چلنے کیلے تیار ہیں۔ افسوس افسوس