نئی دہلی:20اکتوبر۔(ا ی میل)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ایم محمد علی جناح نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”لَو جہاد“ کے نہ پائے جانے کے متعلق این آئی اے کی تحقیقات سچائی کی جیت ہے ۔ وہیں یہ جھوٹ پر قائم طاقتوں کے منہ پر زوردار طمانچہ بھی ہے۔ بین المذاہب شادی کے گیارہ معاملوں کی تفتیش کے بعد این آئی اے کو جبراً تبدیلی¿ مذہب کی منصوبہ بند سازش کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا، جسے میڈیا اور فسطائی طاقتوں نے لَو جہاد کا نام دے رکھا ہے۔واضح رہے کہ کیرالہ اور کرناٹک پولیس نے اس قسم کے الزامات کو پہلے ہی بے بنیاد بتایا تھا۔ این آئی اے کی حالیہ تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ”لَو جہاد“دائیں بازو کی ہندوتوا طاقتوں کی انتہائی خطرناک اور دور رَس نتائج رکھنے والی شیطانی مہم ہے، جس کا مقصد سماج میں مذہبی منافرت پیدا کرنا ہے۔ لَو جہاد کو ایک ہوّا بناکر مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کو بدنام کرنے میں میڈیا کا ایک طبقہ بھی شامل ہے۔ یہ آئینِ ہند کے ذریعہ دیے گئے فرد کے حقوق کو کچلنے کی بھی ایک کوشش تھی۔ ہادیہ بھی اسی مہم کا شکار بنی۔ ہادیہ کو انصاف اور آزادی دلانے میں مسلم تنظیموں ، حقوق انسانی کی جماعتوں اور سماجی کارکنان کی حیرت انگیز اور مسلسل جدوجہد نے اہم کردار ادا کیا۔ اسی لیے این آئی اے کی حالیہ تحقیقات سے اُن سب کو راحت ملی ہے۔گرچہ تحقیقات نے حقیقت کو سامنے لا دیا ہے، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس معاملے میں ایجنسی کے رویے سے ہادیہ کے بنیادی حقوق کے لیے آگے آنے والے افراد اور جماعتوںکو بہت زیادہ بدنامی اور بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ساتھ ہی مسلم قوم کی بھی بہت زیادہ بدنامی ہوئی ہے۔اسلام قبول کرنے کے گیارہ معاملوں کی تفتیش کے بعد، این آئی اے نے یہ تسلیم کیا ہے کہ لو جہاد اور جبراً تبدیلی¿ مذہب کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سپریم کورٹ میں این آئی اے کے دلائل کافی متضاد نظر آئے۔ این آئی اے کا موقف عموماً دائیں بازو کی طاقتوں کے پروپگنڈے اور ہادیہ کے والد اشوکن سے ملتا جلتا رہا۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اس معاملے میں این آئی اے کی مداخلت کی وجہ سے ہادیہ کو بہت دیر سے انصاف ملا۔ شفافیت کی کمی اور کورٹ میں پیش کی گئی ایجنسی کی ’مہربند‘ رپورٹ نے مقدمے کو اسرار و رموز سے گھیر دیا تھا، جس کی وجہ سے مسلم قوم کو بدنام کرنے کی شیطانی مہم شروع ہوئی۔اب جبکہ این آئی اے حقیقت تک پہنچ چکی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے ایجنسی کو سنجیدگی سے کسی معاملے کی حقیقت تک پہنچے کا حوصلہ ملے گا اور بُری طاقتیں اپنی کسی تفریقی مہم کے لیے ایجنسی کے موقف کا غلط استعمال نہیں کر سکیںگی۔ان تحقیقات کی روشنی میں، ہم میڈیا، انتظامیہ اور ملک کے عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ایسے غلط پروپگنڈوں سے ہوشیار رہیں، جن کا مقصد ملک میں نفرت پھیلانا اور فرقہ پرست طاقتوں کے سیاسی فائدے کے لیے قوموں کے درمیان دشمنی پیدا کرنا ہے۔