ایرانی کرنسی کی قدر میں ریکارڈ کمی، بچتوں کے لیے ڈالرکی خریدمیں اضافہ
ایران کی کرنسی ریال امریکی ڈالرکے مقابلے میں ہفتے کے روز ریکارڈ کم ترین سطح پرآگئی جبکہ مرکزی بینک نے کرنسی کے ستحکام کے لیے بعض اقدامات بھی متعارف کرائے ہیں جن کا مقصد افراط زر اور ملک کے معاشی امکانات کے بارے میں فکرمند بچت کرنے والوں کی جانب سے غیرملکی کرنسی کی مانگ کم کرنا تھا۔غیرملکی زرمبادلہ کی ویب سائٹ Bonbast.com کے مطابق غیر سرکاری فری مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں ریال 5 لاکھ 75 ہزار پرتجارت کررہا تھا جبکہ جمعہ کوایک ڈالر5 لاکھ 40 ہزارکاتھا۔ ویب سائٹ bazar360.com نے یہ شرح بھی 575,000 بتائی ہے۔
افراط زر کی سالانہ شرح 50 فی صد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ایرانی غیرملکی کرنسی یا سونا خرید کررہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی بچتوں کی قدر کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔دریں اثناء ایران کے مرکزی بینک نے مارکیٹ کوٹھنڈا کرنے اورڈالرکی طلب کو کم کرنے کی کوشش میں ہفتے کے روزنجی ایکسچینج کی دکانوں پر سخت کرنسی فروخت کرنے پرعاید پابندی ختم کردی ہے۔
گذشتہ ہفتے اس نے عام ایرانیوں کوغیرملکی کرنسی خریدنے کی اجازت دینے کے لیے ایک ایکسچینج مرکز کھولا تھا، لیکن مارکیٹ کے کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام نے ابھی تک غیرملکی کرنسی کی مانگ کوکم نہیں کیا ہے۔اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں نے توقع کی تھی کہ اس مرکز کے کھلنے کے ساتھ ، آزاد مارکیٹ پرجذباتی ٹریڈنگ میں کمی آئے گی لیکن ڈالر نے اوپر کی جانب حرکت جاری رکھی ہے۔اقتصادی ویب سائٹ ایکوایران نے کہا کہ مستقبل کی مارکیٹ میں جوش وخروش اور بھی شدت اختیار کرگیا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں نوجوان کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے ملک گیرمظاہروں کے بعد سے ریال کی قدر قریباً 45 فی صد کم ہو چکی ہے۔غیر ملکی زرمبادلہ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ریال کی قدر میں کمی جزوی طور پر بدامنی،انسانی حقوق کے ریکارڈ اور یوکرین میں روس کی جانب سے ایرانی ساختہ ڈرونز کے استعمال پر مغربی پابندیوں کی وجہ سے ہے۔