برطانیہ کے آئل آف وائٹ پر ڈائنوسار کی ایک نئی نسل دریافت ہوئی ہے۔ پہلے اس کی باقیات کے بارے میں معلومات نہیں تھی۔یہ بکتر بند یا جسم پر ڈھال نما خول والے ڈائنوسار کی پہلی نئی نسل ہے جو سنہ 1865 کے بعد سے جزیرے پر پائی گئی ہے اور اس کا تعلق اینکیلوسارس خاندان سے ہے۔اس جانور کو ویکٹیپیلٹا بیریٹی کا نام دیا گيا ہے۔ یہ عظیم الجثہ جانوراپنی پیٹھ پر آرے کے شکل کی خول کی وجہ سے انتہائی خوفناک نظر آتا تھا لیکن یہ صرف پودے یا سبزی کھایا کرتا تھا۔
یہ دریافت 66 ملین سے 145 ملین سال پہلے کی چٹانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سامنے آئی ہے۔ڈائنوسار کی نئی نسل کا نام پروفیسر پال بیرٹ کے نام پر رکھا گیا ہے جنھوں نے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں 20 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دی ہیں۔
اس کے بعد ایک بیان دیتے ہوئے پروفیسر بیرٹ نے کہا کہ ‘میں اس طرح سے سراہے جانے پر ناقابل یقین حد تک خوش ہوں، میں بے حد خوش ہوں۔’اور انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ان کی ظاہری مشابہت محض اتفاق ہی ہے۔‘یہ ایشیا اور افریقہ میں گھوما پھرا پھرا کرتے تھے
اگرچہ ڈانوسار کی نئی نوع اسی جزیرے پر پہلے ملنے والی اینکیلوسار خاندان کی نوع پولاکینتھس فوکسی سے مشابہت رکھتی ہے لیکن در حقیقت سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں انواع زیادہ قریبی رشتہ دار نہیں ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی گردنوں، کمر اور کولھے کی ہڈیوں میں فرق کے علاوہ یہ بھی فرق ہے کہ ان کی پیٹھ پر زیادہ اٹھی ہوئی یا آری نما ڈھال ہیں۔
ڈائنوسار کی یہ نئی نسل چین میں پائی جانے والی اسی نسل سے زیاد مشابہ ہیں اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی کریٹیئس عہد میں ایشیا سے یورپ تک آزادی سے گھوما پھرا کرتے تھے۔
نیچرل ہسٹری میوزیم کے ایک محقق سٹورٹ پونڈ نے کہا کہ اس دریافت نے انگلینڈ میں اس وقت موجود انواع کے تنوع پر روشنی ڈالی
انھوں نے کہا کہ یہ دریافت اسی طرح کے دیگر محجر باقیات کے دوبارہ تجزیہ کو تحریک دے گی، جن کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک پی فوکسی سے تعلق رکھتے رہے ہیں۔
اسے دریافت کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ جگہ جہاں نئی نسلیں پائی گئیں اسے ویسیکس فارمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے اور ڈائنو سار کے معدوم ہونے کے بارے میں مزید سمجھنے کے لیے یہ ایک ‘انتہائی اہم’ زخیرہ ہے۔اس بارے میں مسابقتی نظریات موجود ہیں کہ 66 ملین سال پہلے ڈائنوسار کے بڑے پیمانے پرغائب ہونے کی وجہ کیا تھی۔ اس کی معدومیت کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی بڑے سیارچے کے زمین سے ٹکرانے اور بڑے پیمانے پر آتش فشاں کے پھٹنے دونوں ہی کی وجہ سے ایسا ہوا گا کہ یہ یکایک کرۂ ارض سے معدوم ہو گئے۔یہ دریافت تعلیمی جریدے جرنل آف سسٹمیٹک پیلیونٹولوجی میں شائع ہوئی ہیں۔
ہے۔