بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کی راہ ہموار سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

0 35

Lنئی دہلی: (بی بی سی اردو) سپریم کورٹ نے 1994 اس کیس کی سماعت دوبارہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں عدالت نے کہا تھا کہ اسلام میں عبادت کے لیے مسجد لازمی نہیں ہے۔

اس فیصلے سے اب بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کی سماعت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

بابری مسجد چھ دسمبر 1992 کو مسمار کی گئی تھی، لیکن زمین کی ملکیت پر نتازع بہت پرانا ہے۔

نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق مسماری کے بعد وفاقی حکومت نے متنازع اراضی کو حاصل کر لیا تھا۔ اس فیصلہ کو درخواست گزار اسماعیل فاروقی نے چیلنج کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام میں عبادت کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے اور (باقی عبادت گاہوں کی طرح) اس کی زمین حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

بابری مسجد اراضی کیس میں مسلمان درخواست گزاروں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ملکیت کے مقدمے کی سماعت سے پہلے فاروقی کیس کو دوبارہ سنا جائے کیونکہ اس فیصلے کا اثر ملکیت کے مقدمے پر پڑ سکتا ہے۔

سپریم کورٹتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionانڈین سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعرات کو اکثریتی فیصلے میں کہا کہ یہ بات ایک خاص تناظر میں کہی گئی تھی اور اس کا موجودہ مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

درخواست گزار اقبال انصاری کے وکیل محمد شمشاد کے مطابق ’عدالت نے کہا کہ اس فیصلے کو زمین حاصل کرنے کے سیاق و سباق میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔۔۔ اور اس کا ملکیت سے متعلق مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن عدالت نے اس فیصلے کو حذف نہیں کیا۔

جسٹس اشوک بھوشن نے اپنا اور چیف جسٹس دیپک مشرا کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ’اس فیصلے کا یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ اسلام میں عبادت کے لیے مسجد کبھی ضروری نہیں ہوتی۔‘

انڈیاتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionہندو مانتے ہیں کہ جس جگہ بابری مسجد قائم تھی وہاں ہزاروں سال پہلے ان کے بھگوان رام پیدا ہوئے تھے۔

لیکن جسٹس ایس عبدالنذیر نے اختلافی فیصلے میں کہا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ بات بغیر کسی مطالعے کے کہی گئی تھی۔

اب ملکیت سے متعلق مقدمے کی سماعت 29 اکتوبر سے شروع ہو گی۔

ہندو مانتے ہیں کہ جس جگہ بابری مسجد قائم تھی وہاں ہزاروں سال پہلے ان کے بھگوان رام پیدا ہوئے تھے۔

2010 میں الہ اباد ہائی کورٹ نے زمین کو تینوں فریقوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن تینوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اسماعیل فاروقی کیس کا بھی ذکر کیا تھا۔

ملکیت کے مقدمے میں اتر پردیش کی حکومت بھی فریق ہے جس کا موقف تھا کہ مسلم گروپ سماعت میں تاخیر کی کوشش کر رہے ہیں۔