انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ دینے والے مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزو کون ہیں؟

مالدیپ میں ’انڈیا آوٹ‘ کا نعرہ دینے والے محمد معیزو نے انڈیا حامی کہلائے جانے والے صدر محمد صالح کو شکست دے کر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔معیزو نے سنیچر کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں صدر ابراہیم محمد بن صالح کے خلاف کامیابی حاصل کی کیونکہ اس سے قبل نو ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

اس کے بعد دوسرے راؤنڈ کا انتخاب 30 ستمبر کو ہوا جس میں محمد معیزو کو 54 فیصد ووٹ ملے جبکہ محمد صالح کو 46 ملے۔انڈیا کے معروف اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ محمد صالح کے انتخابی نقصان کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک حکومت مخالف شدید جذبات ہیں جبکہ دوسری کووڈ 19 کے بعد معیشت سے متعلق تشویش بھی ہے کیونکہ وہاں کی معیشت زیادہ تر سیاحت پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ ’خودمختاری‘ سے متعلق خدشات کے ساتھ محمد صالح کی پارٹی ایم ڈی پی کے اندر پھوٹ اور سابق صدر محمد نشید سے اختلاف بھی شکست کی وجوہات میں شامل ہیں۔

دوسری جانب محمد معیزو کو پروگریسو پارٹی آف مالدیپ (پی پی ایم) کی قیادت والے اتحاد کی حمایت حاصل تھی جنھیں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے جانا جاتا ہے۔

معیزو اپنی انتخابی مہم کے دوران محمد صالح پر حکومت پر الزام لگاتے رہے کہ ملک کے پالیسی فیصلوں میں انڈیا کی مداخلت کی وجہ سے ’مالدیپ کی خودمختاری اور آزادی‘ کو نقصان پہنچا۔

خیال رہے کہ ابراہیم صالح کے دور حکومت میں انڈیا کا مالدیپ سے تعلق بہت مضبوط تھا۔

اگرچہ محمد معیزو کو جیت کی مبارکباد دینے والوں میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی پیش پیش رہے لیکن بحر ہند میں سٹریٹیجک اہمیت کے حامل اس ملک میں چین کی خاصی دلچسپی رہی ہے۔

ایک ہزار سے زیادہ جزائر پر مبنی ملک مالدیپ کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے تاہم یہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انڈیا اور چین کے حالیہ تنازعات کے دوران اس چھوٹے سے لیکن جغرافیائی اہمیت کے حامل ملک کے سربراہ محمد معیزو کے لیے توازن کا قائم رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔

انڈیا بمقابلہ چین
دی ہندو کے مطابق محمد معیزو کو صدر بنانے میں کلیدی کردار پی پی ایم کے سربراہ اور مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین ہیں جو 11 سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ اپنے دور حکومت میں انڈیا کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔

انھوں نے چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے قرضوں کی راہ ہموار کی تھی جس کے بارے میں حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ انھوں نے مالدیپ کو ’قرضوں کے جال‘ میں ڈال دیا ہے۔

ان کے مخالف محمد صالح نے عوامی طور پر ’انڈیا فرسٹ‘ کی پالیسی کا عہد کیا کیونکہ نئی دہلی نے وہاں بہت سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کیے، وبائی امراض کے دوران مالدیپ کی مدد کی اور مالدیپ کے وزیر خارجہ عبداللہ شاہد کو جنرل اسمبلی میں صدر منتخب کروانے کی مہم کے دوران بھرپور مدد کی۔

نتیجے کے طور پر مبصرین نے صالح اور معیزو کے درمیان حتمی انتخابی جنگ کو ’انڈیا بمقابلہ چین‘ قرار دیا اور محمد معیزو کی جیت کو انڈیا کے لیے ’دھچکہ‘ قرار دیا.محمد معیزو آئندہ ہفتوں کے دوران مالدیپ کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔45 سالہ محمد معیزو ایک عرصے تک مالدیپ میں ہاؤسنگ کے وزیر رہے جبکہ وہ فی الحال دارالحکومتی شہر مالے کے میئر ہیں۔ انھوں نے برطانیہ سے سول انجینیئر کی پڑھائی کی۔

وہ سابق صدور محمد نشید اور عبداللہ یامین کی حکومتوں میں ہاؤسنگ اور ماحولیات کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔

سنہ 2013 سے 2018 کے درمیان پانچ سال کی مدت میں محمد معیزو نے بنیادی ڈھانچوں کے اہم پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ان کے دور میں بہت سی بندرگاہوں، پارکوں، سڑکوں اور مساجد کی تعمیر ہوئی۔چار سال قبل محمد معیزو کو اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب وہ حزب اختلاف کے اتحاد کے نائب صدر بنے۔ پھر دو سال قبل انھوں نے مالے کے میئر کے انتخابات میں صدر صالح کے امیدوار کو شکست دے کر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی۔

بہرحال پروگریسو پارٹی آف مالدیپ (پی پی ایم) کی جانب سے انھیں اچانک صدارتی امیدوار بنایا گیا کیونکہ اتحاد کے صدر عبداللہ یامین کو معاشی بدعنوانی کے لیے 11 سال جیل کی سزا ہو گئی تھی۔محمد معیزو کی اہلیہ کا نام ساجدہ محمد ہے اور ان کے تین بچے ہیں۔