انتہائی افسوسناک خبر : این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی کمال خان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال

لکھنو : معرف صحافی کمال خان کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو گیا ہے۔ کمال خان نیوز چینل این ڈی ٹی وی سے وابستہ تھے اور اتر پردیش پر باکمال رپورٹنگ کرتے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق علی الصبح انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، جس کے بعد انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ کمال خان اپنے مخصوص انداز اور نرم لہجہ میں رپورٹنگ کے لئے بہت پسند کئے جاتے تھے۔ کمال خان کا انتقال دنائے صحافت کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے۔

مرحوم کل شام تک رپورٹنگ کرتے رہے اور اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا اور اس دنیا سے ان کا رشتہ منقطع ہوگیا۔
ویسے بھی اچھے لوگوں کے لئے یہ دنیا اب اچھی نہیں رہی۔الله تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت دے آمین
پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے آمین

کمال خان سچاٸی کا علم بردارNDTV کا حق گو اور نڈر اور بے باک پتر کار اچانک چلاجاٸے تو دکھ کے ساتھ حیرت بھی ہوتی ہے لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔
اللہ مغفرت فرماٸے اور لواحقین کو صبر عطا فرماٸے
انا للہ وانا الیہ راجعون
یقین کرنا مشکل۔۔۔ کل شام تک ان کی رپورٹنگ جاری تھی ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے

کمال نہیں مر سکتا!…سید خرم رضا

حقیقت تو یہ ہے کہ کمال کبھی مرا نہیں کرتا، تم بھی اپنی تحریروں، رپورٹنگ اور خیالات کے ذریعہ ہمیشہ ہمارے بیچ رہو گے

سید خرم رضا

کمال خان، میں تم سے کبھی ملا نہیں، پھر مجھے تمہارے اس دنیا کو الوداع کہنے پر ذاتی افسوس کیوں ہو رہا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ کیا لکھوں، یہ میری تنگ نظری ہے کہ تمہارا اس دنیا سے جانا میرا ذاتی نقصان ہے۔ کمال دراصل تمہارا جانا اس ملک کا نقصان ہے، قومی صحافت کا نقصان ہے، ہم سب کا نقصان ہے۔

میری ’خرم‘ کے علاوہ کبھی کچھ بننے کی اگر کوئی خواہش رہی تو وہ صرف کمال خان جیسا صحافی بننے کی رہی۔ تمہاری رپورٹ میں کئی مرتبہ سنتا تھا اور اس سے سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ کوئی کمال خان یوں ہی نہیں بن جاتا۔ تمہاری ہر خبر ہر رپورٹ میں علم کا ایک خزانہ ہوتا تھا۔ رپورٹ میں تمہاری تحقیق کا اندازہ خبر کے انٹرو اور اختمام سے ہوتا تھا۔ تمہاری رپورٹ سے ایسا لگتا تھا گویا علم کا دریا بہہ رہا ہو۔

تمہارا ہمارے بیچ سے جانا ایک ایسا نقصان ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جس کو کوئی پر نہیں کر سکتا۔ اس دور میں جب صحافت پر لوگ طرح طرح کی انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور ہم کٹہرے میں کھڑے ہیں، ایسے وقت میں صحافت کو تمہاری بڑی سخت ضرورت تھی، تمہارا جانا عظیم نقصان ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ تمہاری شریک حیات روچی پر کیا گزر رہی ہوگی۔

کمال تم نے اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ لکھنؤ کی تہذیب کو زندہ کیا اور پیغام دیا کہ صحافت کسے کہتے ہیں۔ تمہاری رپورٹ نے بغیر سنسنی پھیلائے ذہنوں کے دروازے کھولے اور مسائل پر زبردست بحث کی۔ تم ایک ادارہ بن گئے تھے۔ کمال میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا، خیالات اور الفاظ میں کوئی تال میل نہیں بیٹھ رہا، کاش تم نہ جاتے اور مجھے ایسے تمہیں یاد نہ کرنا پڑتا۔

میں جس سے ملا نہیں اس کے انتقال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ بس دعا یہی ہے کہ کمال کے لئے جو موضوعات اور نظریات بہت اہم تھے وہ فروغ پائیں اور ایک خوبصورت ہندوستان قائم ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کمال کبھی مرا نہیں کرتا، تم بھی اپنی تحریروں، رپورٹنگ اور خیالات کے ذریعہ ہمیشہ ہمارے بیچ رہو گے۔

وہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا

کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا

Leave a comment