اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں کیریر کیوں نہیں بناتیں؟

umeام حبیبہ,جرنلسٹ،ممبئی

ہمارے معاشرے کی اکثر طالبات جو اچھی تعلیم حاصل کرچکی ہوتی ہیں، اپنا کریئر نہیں بناتیں۔ وہ گھر گرہستی میں مصروف ہوکر رہ جاتی ہیں جبکہ موجودہ دور میں کریئر بنانا بے حد اہم ہے۔ خواتین کو تقویت دینے (ویمن اِمپاورمنٹ) کیلئے کریئر کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کی کسی کلاس میں اگر چالیس لڑکیاں ہیں تو اُن میں سے چار بھی کسی منصب پر نہیں پہنچتیں، وہ کھو جاتی ہیں، اُمور خانہ داری کو اپنا مقدر سمجھنے لگتی ہیں جبکہ اس دور میں خواتین کیلئے ملازمتوں اور کاروبار کے بہت سے مواقع ہیں۔ کیا اُنہیں کریئر سے دلچسپی نہیں؟ کیا وہ کریئر بنانے کیلئے نکلتی ہیں تو اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا؟ کیا اُنہیں کریئر سے زیادہ ایک طے شدہ زندگی (سیٹلڈ لائف) عزیز ہوتی ہے؟

کیا اُنہیں کریئر سازی سے روکا جاتا ہے؟ یا کوئی اور وجہ ہے کہ کسی دفتر میں بیس خواتین تو ہوں تو اُن میں ایک دو بھی مسلم خواتین نہیں ہوتیں؟ انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہم نے چند تعلیم یافتہ خواتین سے گفتگو کی تاکہ اصل مسئلہ کو سمجھا جائے۔ چونکہ مذہبی بنیاد پر یہ ڈاٹا دستیاب نہیں ہے کہ کن کمپنیوں میں کتنی غیر مسلم اور کتنی مسلم خواتین برسرکار ہیں اور کوئی ایسا سروے بھی نہیں ہوا ہے جس سے معلوم ہو کہ مسلم نمائندگی کم ہونے کی وجوہات کیا ہیں اس لئے ہم نے گفتگو ہی کو واحد ذریعہ سمجھا۔

سیدہ یاسمین : ہم نےپوسٹ گریجوٹ، وکالت، پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ جوب اسلئے نہیں کئے کہ بس ہم اور ہمارا بچہ تھا۔ ہمارے بچے کو دیکھنے والاکوئی نہیں تھا اسلئے جوب نہیں کر پائے۔ہم پہلے امّی کے گھر تھے تو جوب کرتی تھی ۔بچے کو دیکھنے کے لیے امی بھائی سب تھے۔ ہم کورٹ جوائنٹ کی اور جوب کی۔ جب ممبئی آئے تو یہ سب کرنے والاکوئی نہیں تھا اسلئے جوب چھوڑ دیئے۔کیا کریں بچے کو دیکھنے والاکوئی نہیں تھا۔جب تک جوب کرنے ملا ہم نے کیاجوب۔اب اگر بچے ہوجائیں اور آپ کا فرض ہو کہ بچے کو وقت دیںتو آپکو ہر حال میں جوب چھوڑ نا پڑےگا ۔یہ جوب، یہ آپکا بچہ دونوں میں سے کسی ایک کو ہی وقت دے سکتے ہیں۔ ہمارے بچے کو دیکھنے والانہ ہو تو کیسے جوب کرے۔اپنے بچے کو کیر، ایموشنل، فایسیکل،ہر طرح سے آپکو خیال رکھنا ہیںاور اگر والد ساتھ نہ ہو تو ماں کے ساتھ والد کا رول بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ہم نے دونوں رول بہت ہی اچھے سے کیا۔ ہم کو جوب کرنا، امی کے یہاں سے بھی اور ہسبنڈ کے گھر سے بھی اجازت تھی۔ہمارا کیا فرض بنتا تھا اچھی ایجوکیشن ہونے کا یہ مطلب نہیں کے ہم اپنے بچے کو گھر میں چھوڑ دے۔اب اگر کوئی جوب نہیں کرتا ہے تو ہر کسی کی اپنی پریشانی ہے۔ گھر میں کوئی بڑا بیمار ہیں اسلئے بھی جوب نہیں کرتا ھے۔ہر ایک کی الگ الگ وجہ ہو سکتی ہیں۔

اگر ہمیں گھر کا سپورٹ ملتا تو ہم جوب کرتے۔ہماری ساس ہمارے ساتھ ممبئی میں رہتی اور کام والی بھی ہوتی تو جوب پہ جاتے ہم۔ لیکن ہم کام والی کے بھروسے بچے کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہیں۔ اگر ماں باپ کام کرتے ہیں۔تو بچے بڑے ہوتے ہوتے اُنکے خیال سوچنے اور سمجھنا الگ ہو جاتا ہیں۔معلوم ہوا کہ بعض اوقات گھریلو حالات راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں اور خواتین کو کریئر بنانے سے روک دیتے ہیں۔ ایک اور طالبہ فرح سُہیل سے انجینئر ہیں۔ اُن کا بھی یہی کہنا ہے کہ گھر میں ساس اور سسر کی صحت خراب رہتی ہے، یہی نہیں میرا اپنا بھی بیٹا ہے۔ ایسے میں ملازمت کی غرض سے دن بھر باہر رہنا ہو تو گھر کا کام کاج کون سنبھالے گا؟ البتہ فرح یہ کہتی ہیں کہ بیٹا ۱۰ سال کا ہوجائے اور اپنی ذمہ داریوں کو کسی حد تک سمجھنے لگے تو وہ جاب کے بارے میں سوچ سکتی ہیں لیکن فی الحال نہیں۔
نازیہ چودھری نے ایم اے کام کیا ہے۔ اُنہیں آج بھی اچھی جاب مل سکتی ہے۔ وہ خود بھی کریئر بنانے کیلئے کافی پُرجوش ہیں مگر اُن کے سسرال والے ملازمت کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جاب کرنا کچھ ضروری تو نہیں ہے؟
سچ پوچھئے تو ہمارے معاشرے میں یہ مزاج کافی گھروں میں پایا جاتا ہے۔ وہ لڑکیوں کو باہر بھیجنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ کئی لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ ’’اللہ کا دیا سب کچھ ہے، پھر ہماری بیٹی یا بہو ملازمت کیوں کرے!‘‘ایسے لوگ بھی ہیں جو خواتین کی ملازمت کو اس لئے غیر ضروری سمجھتے ہیں کہ اُن کے خیال میں جاب کرنا مردوں کا کام ہے، عورتوں کا نہیں۔
نازیہ چودھری کی طرح شیخ روشنی نے بھی ایم کام کیا ہے۔ ان کی تمنا بھی ہے جاب کرنے کی اور انہیں گھر سے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے مگر اُنہیں کوئی ملازمت نہیں مل رہی ہے۔ اب تک اُنہوں نے کئی کمپنیوں میں اپلائی کیا اور انٹرویو بھی دیا مگر ملازمت نہیں ملی۔ کہیں مل بھی گئی تو تنخواہ معقول نہیں تھی۔ روشنی میں کچھ بے دلی اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ کسی جگہ ان سے کمیشن کی بات کہی گئی کہ اگر جاب مل گیا تو اتنی رقم دینی ہوگی۔ روشنی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پیسہ دینے کیلئے راضی ہوجاتے ہیں مگر جن کے پاس پیسہ ہی نہ ہو تو وہ کیا کرے؟
روشنی کا سوال اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر اُن جیسی لڑکیوں کو جنہیں گھر سے اجازت ملی ہوئی ہے، اپنی مالی پوزیشن کو بہتر بنانے اور خود کو تعمیری طور پر مصروف رکھنے کیلئے اُنہیں حصول ملازمت کی کوشش کو جاری رکھنا چاہئے، آج نہیں تو کل، قسمت مہربان ہوگی اور وہ اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائینگی
تعلیم کا اصل مقصد جاب کرنا نہیں ہے بلکہ ایک اچھا انسان اور اپنی آیندہ نسلوں کی بہترین تربیت کرنا ہے۔ لیکن موجودہ دور کے معاشی تقاضوں میں اگر تعلیم یافتہ خاتون کو اپنے گھر،شوہر اور بچوں کو سپورٹ کرنے کے لیے روزگار اختیار کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے یہ عین ضروری ہوجاتا ہے۔