اسپتالوں میں اموات کا معاملہ:اگر ڈین کوئی کفیل خان ہوتا تو آج جیل میں ہوتا ۔سوشل میڈیا پر بحث

ممبئی۔بی بی سی مراٹھی سروس کی گراؤنڈ رپورٹ کے مطابق شنکر راؤ چوہان گورنمنٹ ہسپتال کے ڈین شیام راؤ واکوڑے نے بتایا کہ اس علاقے میں اتنا بڑا دوسرا کوئی ہسپتال نہیں ہے اس لیے دور دراز کے ہسپتالوں سے ایمرجنسی والے معاملے یہاں آتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہسپتال میں کارکنوں کے تبادلے کی وجہ سے کچھ پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں اور ہفکن انسٹی ٹیوٹ سے اس دوران کوئی دوا نہیں خریدی گئی ہے۔ اس لیے کچھ حد تک دواؤں کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ہسپتال کے بجٹ میں کمی ہو رہی ہے۔

بہرحال سوشل میڈیا پر شور اور حزب اختلاف کی تنقید کے بعد ہسپتال نے یہ بیان جاری کیا کہ ’بچے انتہائی نازک حالت میں پرائیوٹ ہسپتالوں سے لائے گئے تھے۔ اور یہ کہ ہسپتال میں ضروری ادویات کی کمی نہیں ہے۔ ضلعی منصوبہ بندی کے تحت ہسپتال کو رواں سال کے لیے 12 کروڑ روپے دیے گئے تھے اس کے بعد مزید چار کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ گذشتہ دو دنوں میں بہت سے باہر کے مریض نازک حالت میں یہاں لائے گئے تھے اس لیے اموات کی شرح زیادہ ہے۔‘

مہاراشٹر میں حزب اختلاف کی اہم پارٹی شیو سینا کی رہنما اور رکن پارلیمان (راجیہ سبھا) پرینکا چترویدی نے این ڈی ٹی وی کی خبر ’24 گھنٹے میں 24 اموات‘ کا سکرین شاٹ ڈال کر ٹویٹ کیا کہ ’یہ شرمناک ہے، برائے مہربانی اسے موت نہ کہیں، یہ قتل ہے اور اس کا سبب ریاست کی غیر آئینی حکومت کی جانب سے مکمل کوتاہی ہے۔ وہ سب انفلوئنسر ایونٹ اور بیرون ملک کے دورے کی منصوبہ بندی میں اتنے مشغول ہیں کہ وہ ریاست کی خدمت کے اپنے بنیادی کام کو بھول بیٹھے ہیں۔‘
انھوں نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ چھترپتی سانبھا جی نگر میں 10 اور اموات ہوئی ہیں جن میں دو بچے شامل ہیں اور یہ بھی دواؤں کی کمی کے سبب۔ میں پھر سے دہراتی ہوں کہ یہ اموات نہیں بلکہ قتل ہیں۔‘

ٹوائلٹ صاف کرانے کا معاملہ
سوشل میڈیا پر ناندیڑ کے ہسپتال کا ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں شیو سینا شنڈے گروپ (جو بی جے پی کے ساتھ ریاستی سرکار میں شامل ہے) کے رکن پارلیمان ہیمنت پاٹل کو ہسپتال کے ڈین شیام راؤ واکوڑے سے ایک انتہائی گندے ٹوائلٹ کو صاف کراتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ انھوں نے خود پانی کا پائپ پکڑ رکھا ہے۔

سوشل میڈیا پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر دھرو چوہان نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’مہاراشٹر کے ناندیڑ کے سرکاری ہسپتال میں 31 نوزائیدہ بچوں کی ڈاکٹروں کے بجائے دواؤں اور انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے موت ہو گئی ہے۔ اس ایم پی ہیمنت پاٹل کے لیے ان واقعات کے پس پشت کارفرما اصل وجوہات جاننے کے بجائے ڈین ڈاکٹر شیام راؤ واکوڑے سے ٹوائلٹ صاف کرانا زیادہ اہم ہے۔ اس ملک میں میڈیکل پیشہ وروں کی حالت دیکھ کر اور بھی تکلیف ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ناظمہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ناندیڑ کے سرکاری ہسپتال میں 31 نوزائیدہ بچے کی موت ہو جاتی ہے۔ موت کی وجہ دواؤں کی کمی ہے۔ اس کا حل ایم پی ہیمنت پاٹل نے ڈین ڈاکٹر شیام راؤ واکوڑے سے ٹوائلٹ صاف کرا کر نکالا ہے۔ اس کے باوجود وہ بہت ہلکے میں چھوٹ گئے (کیونکہ) اگر وہ کفیل خان ہوتے تو وہ جیل میں ہوتے۔‘
خیال رہے کہ اگست سنہ 2017 میں انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ایک ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تقریبا 63 بچوں کی موت ہو گئی تھی جس میں ڈاکٹر کفیل خان کو ملزم گردان کر معطل کر دیا گیا تھا اور انھیں قید کی سزا ہوئی تھی جبکہ وہ ابھی تک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت نے آکسیجین فراہم کرنے والوں کی ادائیگی نہیں کی تھی اس لیے آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنی نے فراہمی روک دی تھی جس کی وجہ سے اموات ہوئی تھیں۔

ڈاکٹر ناظمہ کے جواب میں صحافی علی شان جعفری نے لکھا: ’یہ کریہ آن کیمرہ گندے ٹوائلٹ کی صفائی گویا 31 اموات کے لیے موزوں سزا ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کی ذات پات والی ذہنیت کو اجاگر کرتی ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے وہ (دوا کی) مستقل فراہمی کو برقرار رکھیں اور ہسپتال میں اچھے انفراسٹرکچر کو یقینی بنائیں۔ کس قسم کی ’جمہوریت‘ اس کی اجازت دیتی ہے؟‘
وہیں ڈاکٹر سنجے (ایم ڈی) نے ٹویٹ کیا کہ ’اپنی حکومت سے بہت سی ضروری ادویات کی عدم دستیابی پر سوال پوچھنے کے بجائے یہ شخص بے شرمی کے ساتھ ناندیڑ میڈیکل کالج اور ہسپتال کے ڈین سے ٹوائلٹ صاف کرا رہا ہے! کیا اس میں ہمت ہے کہ سرکار سے سوال کر سکے؟‘بہت سے لوگوں نے ان اموات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر بھی سوال کیا ہے۔

کانگریس کے سینیئر رہنما اور ترجمان ڈاکٹر جے رام رمیش نے لکھا: ’مہاراشٹر کے ناندیڑ کے ایک سرکاری ہسپتال میں 31 مریض جن میں سے 16 یا تو شیرخوار یا بچے تھے افسوسناک طور پر فوت ہو گئے۔ اس کے باوجود وزیراعظم مکمل خاموش ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’ابھی چند ہفتے قبل تھانے ضلع کے ایک ہسپتال میں ایسا ہی خوفناک سانحہ پیش آیا تھا۔ مہاراشٹر ریاستی حکومت کے پاس بہت سارے وزیر اعلیٰ ہیں، ایک وزیر اعلیٰ ہیں جبکہ دو منتظر وزیر اعلیٰ ہیں۔ لیکن اس غیر آئینی حکومت میں کوئی احتساب نہیں ہے جس کے لیے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے جنھوں نے اس پوری مہم کو انجام دیا ہے۔‘