اسلام کا سنہرا دور: ابن سینا یا ابو علی سینا، ارسطو کے بعد آنے والا ایک اور عظیم فلسفی

387

بی بی سی ریڈیو تھری کی سیریز ’اسلام کا سنہرا دور‘ میں 750 عیسوی سے 1258 عیسوی کا مطالعہ کیا گیا ہے جس میں اس وقت کے فنِ تعمیر (آرکیٹیکچر)، مذہبی تحقیق، طب، نئی سوچ اور فلسفے کا ذکر ہے۔ اس قسط میں ڈاکٹر ٹونی سٹریٹ ہمیں عظیم فلسفی اور پُراثر معالج ابن سینا (یا ابو علی سینا) کے بارے میں بتائیں گے، وہ آج کے ازبکستان کے شہر بخارا میں سال 980 میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن سینا فارس کے شہری تھے جنھوں نے ایک بہترین فلسفی کی حیثیت سے ارسطو کو بھی پیچھا چھوڑ دیا تھا۔ مسلمان سکالرز میں آج بھی وہ اپنا ایک الگ درجہ رکھتے ہیں۔ (بی بی سی اُردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔)

اسلام کے سنہرے دور‘ میں لگ بھگ 500 برس کا عرصہ مشرق وسطیٰ میں اہم سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنا۔

12ویں صدی کے دوران مغربی یورپ نے قدیم یونانی فلسفے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا۔ محققین نے ارسطو کو ’متنازع بت پرست‘ سے ایک قابل احترام فلسفی تسلیم کیا۔ اس عمل میں مغربی محققین ترجمہ کرنے کی اس تحریک سے مستفید ہوئے جس میں عربی میں لکھی گئی تحاریر کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ عمل 11ویں صدی کے آواخر میں شروع ہوا تھا۔عرب فلسفیوں نے ارسطو پر مطالعہ کیا تھا اور یہی مطالعہ لاطینی تہذیب کے کام آیا۔ اور اس کے بعد پھر لاطینی محققین نے براہِ راست یونانی زبان سے ارسطو کے کام کو سمجھنے کی کوشش شروع کی۔ ابنِ سینا وہ اہم عرب فلسفی تھے جنھوں نے لاطینی محققین کو خوب متاثر کیا۔

لاطینی تہذیب کی جانب سے ارسطو کو سمجھنے کے عمل میں ابن سینا ہر وقت اپنی کتابوں کے ذریعے وہاں موجود رہے، خاص کر ارسطو کی میٹا فزکس (مابعد طبیعیات) کے دوران۔

12ویں صدی کے وسط سے ابن سینا کی میٹا فزکس یورپ میں واحد میٹا فزکس تھی۔ 12ویں صدی میں ارسطو کی میٹا فزکس کے مطالعے کے دوران ہمیشہ ابن سینا کی میٹا فزکس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ 1250 عیسوی کے بعد اس کی قدر کم ہو گئی لیکن اس کے باوجود اگلے کئی برسوں تک ارسطو کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ابن سینا کا حوالہ دیا جاتا رہا۔ابن سینا کی ایک تحریر میں خدا اور اس کے بندے کے بیچ فاصلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر یہی تحقیق اطالوی فلسفی سینٹ تھومس اکوائنس کے مذہبی فلسفے کا حصہ بنی۔ یہ فلسفہ قدیم مسیحی مذہب کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک تھا۔

ارسطو کے یورپی مطالعے میں ابن سینا کا بار بار ذکر آتا ہے۔ عربی میں ان کا نام ابو علی ابن سینا ہے۔ وہ عظیم فلسفی اور معروف معالج تھے جو اپنے وقت میں عربی میں کتابیں لکھتے تھے۔ وہ آج کے سینٹرل ایشیا میں 980 عیسویں میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینٹرل ایشیا اور سلطنتِ فارس میں کافی سفر کیا۔ وہ بالآخر آج کے ایران کے شہر اصفہان میں مقیم ہو گئے۔ سنہ 1037 میں ان کا انتقال ہوا۔ اپنی موت کے وقت بھی وہ گھر سے کافی دور تھے۔

10ویں صدی کے دوران سینٹرل ایشیا میں فارس کا شہری، جو عربی بولنا جانتا تھا، یونانی فلسفے تک کیسے پہنچا؟

اس کا جواب بھی ترجمہ کر کے علم حاصل کرنے کی ایک تحریک میں چھپا ہے جس کی ابتدا آٹھویں صدی میں ہوئی تھی۔ اس تحریک کا مقصد کتابوں کا یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کرنا تھا۔ یہ 12ویں صدی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کرنے کی تحریک سے بھی بڑی لہر تھی۔

عباسی سلطنت کی اس تحریک کی بنیاد دارالحکومت بغداد تھا جو اسی دوران نیا تعمیر ہوا تھا۔ یہاں قدیم یونانی تہذیب کی سائنس اور فلسفے کی تحقیق کا جائزہ لیا جاتا تھا۔

اس تحریک کی آمد اور ابن سینا کے عظیم فلسفی بننے میں کوئی دو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ان سے پہلے بھی کئی نامور عرب فلسفی گزرے جن میں الفارابی ایک بڑا نام ہے جو ابن سینا کی پیدائش کے 30 سال قبل 950 عیسوی میں انتقال کر گئے تھے۔ ابن سینا کے لیے الفارابی بہت قابل احترام تھے۔ وہ انھیں اپنا دوسرا استاد مانتے تھے، یعنی ارسطو پہلا استاد اور الفارابی دوسرا۔

بغداد میں اکثر فلسفی ارسطو کی تحاریر سے جڑے رہتے تھے۔ ساتھ الفارابی جیسے فلسفی اپنا ذاتی کام بھی جاری رکھتے تھے لیکن 10ویں صدی کا اصل مقصد عربی میں ارسطو کے کام کا ترجمہ کرنا اور اس کا جائزہ لینا تھا۔

ابن سینا نے یہ سب بدل کر رکھ دیا۔ اپنے انتقال تک انھوں نے ایک عظیم فلسفی بن کر ارسطو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ یہ بات کم از کم مسلمان فلسفیوں کی حد تک درست ثابت ہوئی۔

ابن سینا کی زندگی کے 57 برس اس اسلامی دور کا حصہ ہیں جو ان صدیوں کے بعد شروع ہوئے کہ جب عرب فوجیں فارس کے علاقوں کو فتح کر چکی تھیں اور اس کے بعد فارس کے شہریوں نے اسلامی تہذیب میں بڑی ثقافتی پیشرفت کی تھی۔

ابن سینا خود فارس کے شہری تھے لیکن انھوں نے اپنی دو اہم تحاریر عربی زبان میں لکھیں۔ اس دور کے آغاز میں سال 950 کے آس پاس فارسیوں نے عربیوں سے تہذیبی سربراہی لے لی تھی۔ لیکن پھر ابن سینا کے آخری برسوں میں یہ سربراہی ترکوں کو مل گئی۔

ابن سینا سفر کرتے رہتے تھے، ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ان کا معمول تھا۔ کیونکہ وہ قریب آتی ترک فوج سے بچنا چاہتے تھے۔ اپنی زندگی میں وہ فارس سلطنت میں کہیں نہ کہیں پناہ ڈھونڈتے رہتے تھے۔

انھوں نے محض 20 برس کی عمر میں اپنا گھر بار چھوڑا اور بخارا سے شمال کی جانب چل پڑے اور گرگانج جا پہنچے۔ انھوں نے آج کے ایرانی شہروں ہمدان اور تہران میں بھی وقت گزارا اور آخر میں وہ اصفہان میں مقیم ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک ترک سلطنت میں کام کرنے سے ڈرتے تھے۔

اس سفر سے وہ ان غریب ریاستوں سے نجات حاصل کر پائے جو دشمنوں سے گھری ہوئی تھیں۔ ان شہروں کے درباروں میں فلسفیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وسائل تھے نہ اس کی خواہش۔

وہ عباسی سلطنت میں آل بویہ خاندان کے زیر انتظام شہروں میں پناہ لینے لگے جہاں کے درباروں میں فلسفیوں کی معاونت کی جاتی رہی تھی۔

ہم ابن سینا کے بارے میں اتنا کچھ اس لیے جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنی سوانح عمری 1012 عیسوی کے آس پاس لکھی تھی۔ اور اس لیے بھی کیونکہ ان کے ایک شاگرد نے ان کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں 1012 کے بعد ان کی موت تک کے برسوں سے متعلق تمام معلومات موجود محفوظ رہی۔

اپنی سوانح عمری میں ابن سینا لکھتے ہیں کہ انھوں نے خود بغیر کسی استاد کے فلسفہ سمجھا۔ لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ الفارابی کی ایک تحریر نے انھیں میٹا فزکس سمجھائی جس کے بعد انھوں نے اسے ترک کرنے کا خیال چھوڑ دیا۔ کتاب میں دہرایا گیا کہ انھوں نے آزادانہ طور پر ارسطو کے کام کا مطالعہ کیا۔ یعنی کے بغداد میں سیکھنے سکھانے کی روایت سے آزاد ہو کر اپنی تحقیق خود کی۔ وہ کہتے ہیں کہ 18 سال کی عمر تک ہی انھوں نے اس شعبے میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

ان کی یہی غیر جانبداری انھیں کئی شخصیات کی فلسفیانہ تحقیق اور ان میں کیے گئے دعوؤں کا صحیح جائزہ لینے کے قابل بناتی، چاہے یہ دعوے اس وقت کسے بڑے فلسفی نے کیے ہوں۔

ان کی سوانح عمری میں وہ اپنا حوالہ دیتے ہیں کہ کیسے ان کے نظریات نے جدید فلسفیانہ تحقیق کو پختہ بنایا۔ یقیناً یہ ایک ایسے شخص کی مثال ہے جس نے خود سے علم حاصل کیا۔ انھوں نے فلسفے کی موجودہ روایات پڑھیں، ان کا جائزہ لیا، بعض کو مسترد کیا اور کچھ کو بہتر بنایا۔ابن سینا نے اپنی سوانح عمری میں یہ سب کیوں لکھا؟

یہ اس لیے کیونکہ وہ ایک ایسے ماحول سے آئے تھے جہاں فلسفے کی تسلیم شدہ روایات موجود نہیں ہوتی تھیں۔ وہ اب ایسی جگہ موجود تھے جہاں ہر کسی نے بغداد میں اپنے بہترین اساتذہ سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ جیسے جیسے ابن سینا مشرق کی طرف جاتے رہے، ویسے ویسے انھیں بغداد کے تعلیم یافتہ لوگ ملتے رہے۔ وہ ان کے سامنے خود کو کمتر محسوس کرتے تو یہ سوچتے کہ انھیں کوئی حق نہیں کہ وہ بغداد سے تعلیم یافتہ کسی شخص کی فلسفیانہ تحقیق کو رد کریں۔

سوانح عمری لکھنا اور بغداد کے پڑھے فلسفیوں پر اپنی برتری ظاہر کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ ان کے خلاف دلائل جیتنا خاصا مشکل ہوتا ہوگا لیکن ابن سینا بظاہر اپنی تمام جنگیں جیت چکے تھے۔ہمارے پاس ایک خط موجود ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ابن سینا نے لکھا کہ جب وہ ابتدائی طور پر آل بویہ کی حکمرانی میں پناہ لے چکے تھے۔ یہ خط انھوں نے بغداد کے فلسفیوں کو لکھا اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ کسی معاملے پر بغداد کے ایک سابقہ شاگرد سے ابن سینا کی بحث ہوگئی تھی۔

اپنے خط میں ابن سینا کہتے ہیں کہ بغداد سے تعلیم یافتہ افراد کو کائنات سے متعلق یہ باتیں کس نے سکھائی ہیں اور کیا وہ واقعی اس بارے میں ابن سینا کے سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس خط کا جواب نہیں ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ بغداد کے فلسفیوں نے ابن سینا کا خط پھینک دیا ہوگا۔ وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ ابن سینا کو نظر انداز کریں گے۔ لیکن تاریخ نے انھیں غلط ثابت کیا۔

چند برس بعد ابن سینا بغداد کے ایک فلسفی کی کتاب خریدنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان کے نتائج کا جائزہ لے سکیں اور تنقید کرسکیں۔ اس وقت تک وہ مشہور ہوچکے تھے اور لوگ ان سے ڈرتے تھے۔ کہیں ابن سینا ان کی کتاب نہ خرید لے یہ کہ یہ فلسفی خود اپنی تمام کتابیں خریدنے پر مجبور ہوگیا تاکہ ابن سینا یہ کتاب پڑھ کر اس پر تنقید نہ کرسکیں۔

ابن سینا نے کئی کتابیں لکھیں لیکن انھیں محفوظ رکھنے میں لاپرواہی برتی۔ سال 1020 میں یہ احساس ہوا کہ ان کی ایک ابتدائی تحریر کی کوئی کاپی نہیں بچائی جاسکی۔ یہ ارسطو کی تحقیق پر ان کا تبصرہ تھا۔ تو ان کے شاگردوں نے انھیں اس کا متبادل لکھنے کی درخواست کی۔ ابن سینا نے منع کردیا۔ اس وقت وہ صرف اپنے فلسفیانہ خیالات پر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔

یہ اسلامی تاریخ میں ادبی اعتبار سے ایک اہم لمحہ تھا۔ اسلامی تہذیب میں کئی معروف شخصیات کا حوالہ دیا جاتا تھا لیکن یہ وہ لمحہ تھا کہ جب سب تبدیل ہو جانا تھا۔

ابن سینا کی بعد کی تحریروں میں ارسطو کا ذکر تو ہوتا لیکن محض حوالے کے لیے اور ان کے فلسفے اور دلائل کو سنجیدگی سے نہ لیا جاتا۔ اب عربی میں فلسفے یا مذہبی ادب میں حوالے کے لیے ابن سینا کی تحاریر مرکز بن چکی تھیں۔ وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ لوگ یا ان سے متفق ہوتے یا ان سے اختلاف رکھتے اور ان کی بات میں اضافہ کرتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فلسفے کے ماہر بن چکے تھے

طب میں خدمات اور خدا کا تصور

ابن سینا کی اتنی ساری کتابوں پر کیا کہا جائے۔ طب کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس وجہ سے حیران ہوجائیں کہ یہاں طب کے شعبے میں ان کی خدمات کا بہت کم ذکر کیا گیا ہے۔

ان کی ایک کتاب وہ بھی ہے جو 14ویں صدی سے 1715 تک یورپ کے ہر میڈیکل کالج کے نصاب میں کسی نہ کسی شکل میں شامل ہوتی تھی۔ یہاں ان کی دیگر سائنسی خدمات کا بھی حوالہ نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان خدمات کی قدر فلسفیانہ تحاریر کی نسبت کچھ بھی نہیں۔

ان کے اہم نظریات میں سے ایک روح کا تصور ہے۔ اس دلیل کا موازنہ اکثر فرانسیسی فلسفی رینے دیکارتس کے کام سے کیا جاتا ہے۔ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ: ’میں سوچتا ہوں۔ اس لیے میرا وجود ہے۔‘

یہاں زیادہ غور میٹا فزکس میں ان کی خدمات پر کیا گیا ہے۔ ان میں ’کسی کی خصوصیت اور کسی کے وجود میں فرق‘ کے نظریات ہیں۔ ان سے قبل بھی فلسفیوں نے اس موضوع پر بات کی تھی۔ لیکن کسی نے اتنے وسیع پیمانے پر اسے اپنی میٹا فزکس کی بنیاد نہیں بنایا تھا۔

ابن سینا کے لیے کسی کی خوبی اور کسی کے وجود میں فرق سب سے اہم موضوع تھا۔ ان کے مطابق ’کوئی بھی چیز اپنی خصوصیات پر پورا اترتی ہے، جیسے ایک انسان، بلی یا درخت۔ اس سے یہ واضح ہوسکتا ہے کہ یہ چیز کیا ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا اس کا وجود بھی ہے۔ کسی چیز سے متعلق اگر آپ فیصلہ کیے بغیر یہ سمجھ جائیں کہ یہ کیا ہے تو یہ وہی چیز ہے۔‘۔

ان کا مطلب تھا کہ ہر چیز اپنی خصوصیات کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ چیز خود اپنا الگ وجود بھی رکھتی ہے۔ یہ فرق قائم کرنے پر ابن سینا سوال کرتے ہیں کہ پھر اس چیز کو کیا سمجھا جائے کہ یہ کیا ہے، یعنی کیا اس کی خصوصیات اسے معنی دیتی ہیں یا اس کا وجود۔

ان کے مطابق صرف ایسی چیزیں اپنا وجود رکھتی ہیں جنھیں بیان کیا جاسکے۔ یہ جملہ اپنے انداز میں اہم ہے۔ ابن سینا ان فلسفیوں میں سے ہیں جو موجودہ حالات کی بنا پر کسی معاملے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ علت و معلول (یعنی انگریزی میں کاز اینڈ افیکٹ) پر یقین رکھتے تھے۔

ان کے مطابق چونکہ یہ دنیا خدا کی طرف سے ضرورت کے تحت تخلیق کردہ ہے اس لیے اگر ایک دوسری دنیا ہوتی تو وہ اسی دنیا کی ہر چیز میں مشابہت رکھتی ہوتی۔ دنیا میں ہر چیز کسی دوسری چیز کی بنا پر اپنے اندر ایک ضرورت رکھتی ہے۔

وہ ہر چیز سے متعلق اس کی خصوصیات اور اس کے وجود کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر دنیا بننے کے پیچھے کوئی بڑی وجہ نہ ہوتی تو اس کا وجود نہ ہوتا۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ دنیا بننے کے پیچھے کوئی وجہ ہے تو یہ بھی خصوصیات اور وجود کے فلسفے کے مطابق ہوگی۔ یعنی کوئی چیز کیا ہے یہی اس کا وجود ہے۔

یہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ ’خدا کیا ہے؟ اس کا جواب خدا کے وجود میں ہے۔‘

ابن سینا کے بعد دینیات کا علم بدل کر رہ گیا، چاہے بات مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ جس طرح یورپ میں ابن سینا کا حوالہ دیا جانے لگا اسی طرح ان کا کام مشرق میں بھی نمایاں رہا۔ جیسے خدا کے وجود کی یہ دلیل مدرسوں میں بتائی جاتی ہے، یا جس طرح عالم خدا کی خوبیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

آپ یہ سمجھ لیں کہ جب ایک مسیحی نوجوان گرجا گھر میں اور ایک مسلمان کسی مدرسے میں دینی علم حاصل کرنے جاتا ہے تو وہ اسی وقت ابن سینا کا مقروض ہوجاتا ہے۔(بہ شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)