آسام میں دیسی و مقامی مسلم آبادی کی شناخت کیلئے سروے کا منصوبہ

گوہاٹی 10 فروری (سیاست ڈاٹ کام) آسام میں توقع ہے کہ اس ریاست کے دیسی مسلمانوں کی شناخت کے لئے سروے کا آغاز کیا جاسکتا ہے تاکہ اُنھیں بنگلہ دیش کے غیر قانونی مہاجرین سے الگ کیا جاسکے۔ یہ اطلاعات ایک ایسے وقت آئی ہیں جب شہریوں کے قومی رجسٹر کے پوری طرح صحیح ہونے کے بارے میں پیدا شدہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہنوز باقی ہے۔

ان منصوبوں کے تحت چائے کے باغات سے وابستہ قبائیل کی چار برادریوں گوریا، موریہ، دیسی اور جولدہ کی شناخت و نشاندہی کی جائے گی جو دیسی (مقامی) سمجھے جاتے ہیں۔ آسام کے وزیر اقلیتی بہبود رنجیت دتہ نے ان منصوبوں کو قطعیت دینے کے لئے ان چار برادریوں کی مختلف تنظیموں اور دیگر متعلقہ افراد کے نمائندوں کا منگل کو ایک اجلاس طلب کیا تھا۔ آسام اقلیتی ترقیاتی بورڈ کے چیرمین مومن الاول نے پی ٹی آئی سے کہاکہ ’آسام میں 1.3 کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے جن میں 90 لاکھ بنگلہ دیشی نژاد ہیں۔ ماباقی 40 لاکھ مختلف مقامی دیسی قبائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی شناخت کی ضرورت ہے۔

اُنھوں نے دعویٰ کیاکہ حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی فلاحی اسکیمات سے دیسی مسلمان محض مناسب شناخت نہ ہونے کے سبب محروم ہیں۔ مومن الاول نے جو جنا گوستیا نموائے پریشد آسام کے چیرمین بھی ہیں، کہاکہ دیسی مسلمانوں کے سروے کے سارے عمل کا مقصد اس ریاست میں ہونے والی جغرافیائی و آبادیاتی تغیرات سے دیسی مسلمانوں کو بچانا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ ’این آر سی میں لاکھوں بنگلہ دیشی نژاد افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم اس (این آر سی) پر انحصار نہیں کرسکتے۔ اگر اب ہم اس ضمن میں کام نہیں کریں گے تو ایک دن ایسا بھی آئے گا جب مقامی و دیسی آسامی قبائیل کا آسام سے صفایا ہوجائے گا‘۔ اُنھوں نے کہاکہ ’اگر ایک مرتبہ دیسی قبائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا تو ان افراد کی ترقی کے لئے یہ آسان ہوجائے گا۔ ان قبائیل کے نمائندہ کی حیثیت سے 2015 ءمیں اُس وقت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کرچکا تھا‘۔ دیسی گروپوں نے راج ناتھ سنگھ سے اس قسم کے کسی سروے کے اہتمام کی درخواست کی تھی۔ اس سوال پر کہ آیا اس منصوبہ پر کس طرح عمل کیا جائے گا، الاول نے جواب دیا کہ ریاستی حکومت سے ہم درخواست کریں گے کہ آر جی آئی (رجسٹر جنرل آف انڈیا) سے منظوری و توثیق حاصل کی جائے۔ آر جی آئی کی منظوری کے بغیر سروے کو قانونی حیثیت سے قابل قبول متصور نہیں کیا جائے گا‘۔ اُنھوں نے کہاکہ مسلم قبائیلیوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے خواہش کی کہ مارچ تک یہ عمل مکمل کرلیا جائے تاکہ مردم شماری و اندراج کا کام آئندہ مالیاتی سال کے آغاز سے شروع کیا جاسکے۔