آزادی ہند اور سقوط حیدرآباد
جس وقت نادر شاہ کی فوجوں نے دہلی میں آخری مرد کو تک ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا تھا ایک سفید ریش بزرگ فخر الدین خان نظام الملک جن کے دادا خواجہ عابد نے اورنگ زیب سے اپنی شجاعت کے انعام میں خلیج خان کا خطاب حاصل کیا تھا’نادر شاہ کے قدموں میں اپنی پگڑی رکھ کر انسانیت پر رحم کی درخواست کی تھی۔ نادر شاہ نے اس بزرگ کا احترام کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو واپسی کا حکم دیااور قمر الدین علی خان دکن کے صوبہ دار کی حیثیت سے دکن میں آصفجاہی خاندانِ نظام کی بنیاد رکھی جس وقت 1748ء میں ان کا انتقال ہوا اس وقت ریاستِ حیدرآباد نربدا سے ترچنا پلی تک اور کوکن سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھی۔اس کے بعد انگریز اور فرانسیسی حکومتوں نے اپنے داخلے کی کوششیں شروع کر دیں اور ان ہی کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں بعد کے جانشینوں میں قتل و بغاوت کے ذریعۂ تخت کے لیے رسہ کشی جاری رہی انگریز کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کی سازشوں نے 1948ء تک بھی خاتمہ ریاست تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور ریاستِ حیدرآباد کی سرحد میں ہر دور میں سکڑتی رہیں۔
انجام
ریاست حیدرآباد کا بالاخر ہندوستان میں شامل ہونا ایک منطقی اور فطری امر تھا جس کے اسباب کئی تھے۔ مثلاً یہ کہ ہندوستان کے نقشے پر حیدرآباد کی ریاست ایسے مقام پر تھی جس کے چاروں طرف جمہوری آزاد ہندوستان کی سرحدیں تھیں۔ دوسرے یہ کہ انقلاباتِ زمانہ نے عوام کے ذہنوں میں ساری دنیا میں ہی ایک جمہوری شعور بیدار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کا چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو ایک بادشاہ کے ساری عمر زیرِ حکومت رہنا ممکن نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ کسی اسٹیٹ کی بقا کے لیے اس کے بین لاقوامی رابطے صرف بندر گاہوں یا ایر پورٹس پر منحصر ہوتے ہیں جو موجود نہیں تھے نہ دفاعی ساز و سامان تھے نہ فوج ۔
ان وجوہات کی بنا پر حیدرآباد کا ہندوستان میں شامل ہو جانا یا شامل کر لیا جانا ایک لازمی امر تھا جو بالاخر ہونا تھا لیکن اگریہ کام عوامی شعور کو بیدار کر کے پُر امن طور پر سامنے آتا تو شائد تاریخ کا شاندار کارنامہ ہوتا لیکن بد قسمتی سے جن حالات میں سقوطِ حیدرآباد ہوا وہ نہ صرف مسلمانوں کی بد نصیبی کی تاریخ کا ایک المیہ ہے بلکہ خود ہندوستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے جس کی ذمہ دار ایک طرف وہ ہندوستانی لیڈرشپ تھی جو تعصب اور نفرت کے ذریعۂ حیدرآباد کو بحیثیت ایک مسلم اسٹیٹ کے ختم کرنے کے در پئے تھی تو دوسری طرف وہ مسلمان قیادت تھی جو تعصب کا جواب تعصب اور نفرت کا جواب سے دینے کے جذباتی رویہ ٔ پر کھڑی تھی تیسری طرف سخی و عوام پرور نظام تھے جن کی سیاست نا عاقبت اندیشی اور خام خیالی پر مبنی تھی۔ بقول ابوالاعلی مودودی کے جنھوں نے سقوطِ حیدرآباد سے 9ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھ جانا یقینی ہے رئیس اپنی جان و املاک بچا لے جائگا اور عوام پس جائنگے ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت پر ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی صاحب نے جوش میں پھاڑ دیا جو اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت ہے۔ اگرچیکہ امت کو نواب بہادر یار جنگ (راقم ان کی سوانح حیات پر پھر کبھی لکھے گا) کی صورت میں ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے والا انسان مل گیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ان کو زہر دیکر شہید کر دیا گیا۔ آخری صدر اعظم لائق علی خان اپنی کتاب دی ٹریجڈی آف حیدرآباد میں لکھتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ کی موت پر اگر کسی کو سب سے زیادہ خوشی ہوئی تو وہ نظام تھےقائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے انتقال کے بعد مسلمان قیادت کی امیدوں کا آخری چراغ گُل ہو گیا اور ملت کی کشتی مسلسل ڈوبتی رہی نواب میر عثمان علی خان جن افراد کے درمیان تھے ان کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 13ستمبر 1948ء کو ہندوستان کے پولیس ایکشن کے ساتھ ہی سب سے پہلے عثمان آباد میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کی خبر نظام تک پہنچی تو ان الفاظ میں کہ سرکار! قاتلانِ حسین پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے مختصر یہ کہ مسلمان قیادت کا یہ ایک ایسا منظر تھا دوسری طرف جبکہ کانگریس پرریاستِ حیدرآباد میں امتناع عائد تھا اس کی مدد سے اسٹیٹ کانگریس ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج تحریک نے شورش برپا کرنے بیرون ریاست ہندوؤں پر مظالم کی فرضی داستانیں پیش کر کے ریاست کے خلاف قومی اور بین الاقوامی رائے ہموار کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اگرچیکہ ان سازشوں کو ہندو مسلم عوام کا تعاون حاصل نہ ہو سکا لیکن حکومت کی خاموشی نے فرقہ واریت کے زہر کے پھیلنے میں مدد کی اور رفتہ رفتہ فسادات ہونے لگےلاتور کا فساد حیدرآباد کی تاریخ میں اہم فساد اور فرقہ پرستوں کے لیے پہلی بڑی کامیابی کی شکل میں سامنے آیا جس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب سے ایک تنظیم انجمن دفاع المسلمین کے نام سے قائم کی گئی جس کا بعد میں مجلس اتحاد المسلمین نام پڑا اس تنظیم کے دستور سازوں نے روزِ اول سے ہی حیدرآباد کے درد ناک انجام کی بنیاد ڈالی اس کے دستور کی سطرِ اول میں جو موقف پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ” مسلمانان مملکتِ آصفیہ کی یہ حیثیت ہمیشہ برقرار رہے کہ فرمانروائے ملک کی ذات اور تخت ان ہی کی جماعت کے سیاسی اقتدار کا مظہر ہے۔ اس بنا پر مملکت کی ہر دستوری ترمیم میں فرمانروا کے اقتدارِ شاہانہ کی بقا و احترام مقدم رہے ” یہ نقطہ ٔ نظر مسلمانوں کی سیاسی خودکشی کا آغاز بنا اس لیے کہ مسلمان اقلئت میں تھے جو سیاسی برتری انہیں حاصل تھی وہ آبادی کی بنا پر نہیں بلکہ خاندانِ آصفیہ کی فرمانروائی اور اقتدار کی رہی نِ منت تھی جس کے در پردہ انگریز کی مستقل غلامی کا اقرار بلکہ عہد تھا۔فی الحقیقت حیدرآباد اور ہندوستان دونوں کی قیادتیں اپنے اپنے مقاصد سے خلوص رکھتی تھیں حیدرآباد یہ چاہتا تھا کہ ایک با وقار سمجھوتے کے ذریعہ فیصلہ ہو اور ہندوستان یہ چاہتا تھا کہ حیدرآباد مشروط طور پر بغیر کسی مراعات کا مطالبہ کرے ‘ الحاق کردے
دوسری طرف جو مصلحت کار فرما تھی وہی آج الجیریا مصر ‘ بوسنیا اور پنجاب وغیرہ میں نمایاں ہے کہ کمزور کا صفایا کرنے کے لیے اس کو تصادم پر مجبور کر دیا جا تا ہے تاکہ ظالم ہونے کا الزام سر پر نہ آئے اس کے لیے پریس پروپگنڈہ بنیاد پرستی جیسی اصطلاحیں (Arms Embargo , TADA, EITA) جیسے قوانین کے ذریعئے مظلوم کو ظالم بنا کر قومی اور بین الاقوامی رائے کو ظالم کے حق میں ہموار کر دیا جاتا ہے یہی کچھ حیدرآباد میں ہوا۔
رضاکار تنظیم جو حقیقت میں فرقہ پرستی کے مقابلے میں وجود میں آئی تھی اس کو بہانہ بنایا گیا۔ یہ گروہ آزاد نوجوان پر مشتمل تھا جو حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ اس کو بہانہ بنا کر پورے حیدرآباد کو رضاکار تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا اس کے قائدین کی شعلہ بیا نی ہر دور میں بلند رہی جو موافقین کے لیے جذباتیت کا سامان پیدا کرتی ہے اور مخالف کے لیے دھمکی کا خوف طاری کر دیتی ہے۔ اس وقت کے نازک حالات میں رضاکار قائدین کی تقریروں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔
6 اپریل 1948ء کو ہندوستان ٹائمز میں ایک فتنہ انگیز خبر شائع ہوئی کہ قاسم رضوی نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا عزم کیا ہے۔ اتحادالمسلمین نے تردید کی کہ اس قسم کی تقریر سرے سے ہوئی ہی نہیں لیکن تیر نکل چکا تھا جو اپنا کام کر گیا اور جواہر لعل نہرو کو پولیس ایکشن کا جواز مل گیا۔
24 اپریل کو انہوں نے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں
اپنی تقریر میں کہا کہ حیدرآباد ہندوستان کے سینے پر ایک نا سور ہے اور الٹی میٹم دیا کہ الحاق یا جنگ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے حیدرآباد تیار ہو جائے۔
سردار پٹیل نے اتحاد المسلمین کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد اسمبلی کے قیام کے لیے بھی سفارش کی۔ 1947 تا 1948ء ایک سال تک Stands till agreement کے ذریعۂ حیدرآباد پر ایکشن روکا گیا جس کی اہم وجہ یہ تھی کشمیری محاذ پر ہندوستانی فوجیں برسرِ پیکار تھیں اور حیدرآباد اور کشمیر دونوں کے کیسس اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل تھے اس لیے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ حیدرآباد کے مسلیے کو ابھی اور مضبوط ہونے تک کسی قسم کی جنگ یا ایکشن سے گریز کیا جاے۔
اس دوران نظام نے ریاستِ نو پاکستان کو لاکھوں روپئے کی مدد کی اور اور اس کے قیام میں اہم رول ادا کیا مگر بحرحال اتنی رقم تو وہ دے نہیں سکتے تھے جو انگریزوں پر لٹا چکے تھے پر افسوس کہ نظام کی تقدیر میں یہی رہا کہ وہ جس پر اپنا مال لٹاتے وہ انہیں بچانے میں ناکام ہوتا نظام ایک طرف تو رضاکاروں سے حکومت کی برأت کا حکومتِ ہند کے سامنے اظہار کرتے رہے اور دوسری طرف 6 مئی 1947کوانہوں نے اپنی سالگرہ کے جشن میں جو رضاکاروں کی طرف سے منایا گیا ہزاروں رضاکار نوجوانوں کو پریڈ کرنے کی اجازت دی۔ اب تصویروں کے ذریعہ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں تشہیر ہوئی کہ نظام اور رضاکار ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں حیدرآباد کی سخت ترین معاشی ناکہ بندی ہو چکی تھی ذرایعٔ حمل و نقل کے ساتھ ہی تیل پٹرول اور پینے کے پانی کے لیے کلورین بند ہو گئے شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ دواؤں کا سلسلہ بہت پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔ فوجی چھیڑ چھاڑ کے واقعات شروع ہو گئے عثمان آباد کی چوکھی پر حیدرآباد کی ایمیگریشن اور ہندوستانی فوجیوں کی جنگ میں بے شمار افرادہلاک ہوئےراست حملے کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات اور پاکستان کے کود پڑنے کا خطرہ تھا لیکن میجر جنرل چودھری کی My Secret Diary کے بموجب فروری 1948 ء میں منصوبہ کو قطیعت دے دی گئی۔
فوجی کارروائی کا نام آپریشن پولو رکھا گیا۔ نظام کے خاندان کی تذلیل کے لیے یہ نام چنا گیا تھا کیونکہ آصفجاہی شاہزادے اور اُمراء پولو کھیل کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ ماہر بھی تھے۔ ہزاروں روپیوں (جو اس وقت ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی) کی شرطیں بھی لگائی جاتیں
11 ستمبر 1948ء کو محمد علی جناح کا انتقال کر جانا افسروں اور جوانوں کے لیے ایک فالِ نیک ثابت ہوا۔ گاندھی جی پہلے ہی راستہ سے ہٹ چکے تھے اب جناح بھی نہ رہے حملے کی زبردست تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ادھر نظام کو یہ یقین دلایا گیا کہ نہرو حکومت ان کی اچھی طرح حفاظت کرے گی جبکہ نظام کی حیدرآبادی ناکہ بندی کے خاتمہ کی درخواست مسلسل حیلے بہانوں سے ٹالی جا رہی تھی۔
13 ستمبر کو صبح 4.30 بجے حیدرآباد کی 22 سمتوں سے ہندوستانی فوج داخل ہوئی اور شولا پور کی طرف سے اور دوسرے بیرہ واڑی کی طرف سے سخت ترین حملے ہوے۔ حیدرآبادی فوجیں مسلسل پسپا ہوتی رہیں جس کے اکثر کمانڈر مسلمان تھےچار دن تک مسلسل ہزا رہا مسلمانوں کے مرنے کی اطلاعات آتی رہیں ورنگل بیدر اور اورنگ آباد پر اندھدھند بمباری کے ذریعئے لاکھوں انسان خاک میں مل گئے یا پھر بے گھر ہو گئے۔
16 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ پیش آنے والا تھا اور آیا بھی لیکن ہندوستان نے اس کو نظام حکومت میں چند فرقہ پرست افراد کے خلاف ایک پولیس ایکشن کا نام دے کر مزید وقت لے لیا۔
17 ستمبر کو جنرل چودھری نے حیدرآباد کے فتح ہوجانے کی دہلی کو اطلاع دے دی۔ نظام کی معیت میں ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر انہوں نے نظام سے ایک ہی لکھا ہوا اعلان پڑھوایا کہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔ 17 اور 18 ستمبر کی شب وحشیوں کی عید کی رات تھی جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا کمیونسٹوں آریہ سماج اور ہندو مہا سبھا کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمان کے گھر اور مال کی نشان دہی کروائی جی بھر کر لوٹا عورتیں بے عصمت ہوئیں لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔
آج بھی حیدرآباد کے لوگ اس ظلم کے حوالے سے ستمبر کو ستم کا مہینہ کہتے ہیں۔ موسی ندی میں اتنی لاشیں پھینکیں گئیں کہ اس کا پانی سرخ ہو گیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے گانڈھی جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے کہیں ان کی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہونگی۔ جنرل چودھری لائق علی وزارت کی برطرفی اور لائق علی سمیت تمام وزرأ قاسم رضوی قائدینِ مجلس اتحاد المسلمین رضاکاران کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پرنس آف برائر جن کو لائق علی کے بعد وزارت کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا تھا نشہ میں مخمور جنرل چودھری کے سامنے وزارت کی تشکیل کی دعوت کے انتظار میں جھک کر کھڑے تھے۔